Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

اقبال شاه ایڈووکیٹ کارو کاری پر سندھی ادب اور اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا

  کارو کاری پر سندھی ادب اور اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اگر ایک جانب سب سے زیادہ اس قبیح رسم پر ادباء اور شعراء نے لکھا ہے تو دوسری جانب...


  کارو کاری پر سندھی ادب اور اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اگر ایک جانب سب سے زیادہ اس قبیح رسم پر ادباء اور شعراء نے لکھا ہے تو دوسری جانب یہ عمل اسی طرح پروان بھی چڑھا ہے اور چڑھ رہا ہے۔ شاید یہ سائنسی بنیادوں پر مانے گئے اس فارمولے کے مصداق ہو کہ کسی چیز کو جب جتنا دبایا جاتا ہے تو اتنا ہی وہ پھیلتا جا رہا ہوتا ہے۔  گزشتہ جمعے کو آرٹس کونسل میں ریڈر اینڈ رائٹر کیفے کی نشست ڈاکٹر تنویر انجم کی انتھک محنت اور آدی نور الہدی شاہ کی پرکشش میزبانی کی بدولت جوش ملیح آبادی لائبریری میں سندھ میں کاروکاری، ادب اور حقائق پر منعقد کی گئی۔  اس نشست کی خاص بات یہ تھی کہ اس نشست میں ڈاکٹر امر سندھو اور ڈاکٹر عرفانہ ملاح کو اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔  اس موضوع پر سندھی اور اردو میں لکھے گئے ڈراموں، افسانوں اور شاعری پر سیر حاصل گفتگو کی گئی اور اس کے بعد سوالات اور جوابات کا بھی سلسلہ تادیر چلا اور یہ پروگرام بڑی سنجیدگی سے اختتام پذیر ہوا۔  اس دوران امر سندھو نے ایک واقعہ ایک دوست ڈاکٹر کے حوالے سے سنایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ لڑکی جو شیلٹر ہوم میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی تھی، کسی لڑکے کے پیچھے اپنے گھر سے نکلی تھی لیکن وہ لڑکا مقررہ وقت اور مقام پر نہ پہنچ سکا اور اس لڑکی کے لئے گھر واپسی ناممکن بن گئی جس کے سبب پھر اس لڑکی کو شیلٹر ہوم میں پناہ لینا پڑی۔  اصل مین سندھی اور پشتو کلچر میں مماثلت کے باعث کاروکاری جس کو پشتو میں تور یا تورا بولتے ہیں بہت حد تک ادب کے حوالے سے بھی کافی یکسانیت کے حامل ہیں۔ مثال کے طور پر :۔   جب میں نے پشتو ادب میں کاروکاری یا تور یا تورا پر نظر دوڑائی تو ڈرامے بھی میرے یاداشت کا حصہ بنے، افسانے بھی میرے مطالعے سے جو گزرے تھے وہ بھی ذہن میں پھر سے تازہ ہو گئے۔  لیکن کاروکاری کے حوالے سے جو پشتو کی مشہور مثنوی جسے پشتو میں بدلہ بولتے ہیں۔ شیر عالم میمونئی دو کرداروں کے حوالے سے جو لوک کہانی پر لکھی گئی ہے بالکل بے مثال ہے اور پھر ریڈیو کے دور میں جب ریڈیو کا طوطی بولتا تھا جب مشہور گلوکار اور موسیقار فضل ربی استاد خاص کر مثنوی گایا کرتے تھے تو اس کا لطف دو بالا نہیں بلکہ سہ بالا ہو جاتا تھا جس میں تخلیق کار نے ایک مزاحمتی رنگ کو الگ سے اجاگر کیا ہوا ہوتا تھا اور شیر عالم کو ظالم اور میمونئی کو مظلوم کی صف میں لا کھڑا کیا ہوا ہوتا تھا چونکہ یہ فوک تھا تو سننے کے بعد عام لوگوں کی ہمدردی بھی میمونئی کے ساتھ ہو جاتی تھی نہ کہ شیر عالم کے ساتھ۔  اس مثنوی میں ایک روز شیر عالم کے دوست اس کے حجرے یا اوطاق میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت شیر عالم گھر پر نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ عام رواج ہوا کرتا تھا کہ حجرے میں ایک حقہ  ضرور پڑا ہوا ہوتا تھا۔ جس میں تمباکو ڈال کر پیا جاتا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے پاس تمباکو نہیں تھا۔ اور ایک دوست نے اس کے گھر کے دروازے پر جاکر دستک دی اور باہر سے شیر عالم کی بیوی سے اپنا تعارف شیر عالم کے دوست کی حیثیت سے کروایا اور تمباکو دینے کا کہا۔  شیر عالم کی بیوی نے ادھ کھلے دروازے سے ہاتھ باہر نکال کر شیر عالم کے دوست کو جب تمباکو دے رہی تھی عین اس وقت شیر عالم جو گھر کی طرف آ رہا ہوتا ہے، دور سے ان کو دیکھ لیتا ہے اور گھر میں آ کر اپنی بیوی سے بحث تکرار شروع کرتا ہے کہ اس نے کوئی غیر مرد کے سامنے ہاتھ باہر نکال کر تمباکو دیا وہ شیر عالم کو وجہ بتاتی ہے لیکن وہ ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتا ہے اور آخر کار میمونئی کو مار دیتا ہے۔  ویسے تو یہ سارا مثنوی بہت پرسوز اور دلکش ہے لیکن مثنوی کے بیچ میں جو ٹپے ہیں وہ اس مثنوی کی تخلیقیت کو مزید نکھارنے کے ساتھ ساتھ سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کو بھی جھنجھوڑتے ہے۔ مثال کے طور پر ۔  پہ ناوگے کے اوبہ نہ وے د میمونئی د وینو راغلل سیلابونہ ( ناوگے وہ گاؤں تھا جس میں یہ واقعی ہوا تھا ) ۔ یعنی ناوگے میں سرے سے پانی ہی نہیں تھا لیکن میمونے کے قتل کے بعد ناوگے میں خون کا سیلاب امڈ آیا۔ یا مثنوی کا یہ مصرعہ کہ شیر عالمہ خدائے دے خوار کا سہ دے اوکڑل د تمباکو پہ پانڑو چا کڑی مرگونہ شیر عالم : تمھیں خدا خواروزار کرے کبھی کسی نے تمباکو کے پتے دینے اور لینے پر بھی کسی کو قتل کیا ہے۔  یہ تو مثنوی کا ذکر تھا پشتو ٹپہ پشتو ادب میں فوکلور کا وہ صنف شاعری ہے جو اس وقت کی پیداوار ہے جب ادب سینہ بہ سینہ لوگوں میں منتقل ہوا کرتا تھا لیکن اپنے دور کے ہر موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس میں کاروکاری یا تور یا تورا سے متعلق ٹپے اس موضوع سے خاص مطابقت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ  ما دے ٹوپے پہ سر گنڑلہ د جینکو پہ وار پیدا ورکہ دے کڑمہ میں تو تمھیں یہ جان کر مرد سمجھتی تھی کہ تم اپنے سر پر ٹوپی پہنتے تھے۔  تم تو لڑکیوں کی وار یعنی سیریز میں پیدا ہونے والے لڑکے نکلے تم نے تو مجھے لاپتہ ہونے والے لوگوں میں دھکیل دیا۔  ہمارے بہت سارے علاقوں میں اب بھی مردوں کے لئے ٹوپی پہننا لازمی ہے اور یہ ایک رسم کے طور پر رائج ہے۔  دوسرے لڑکیوں کی پیدائش کے وار یا سیریز کا مطلب یہ کہ گاؤں میں ایک وقت ایسا آتا تھا یا آتا ہے کہ سارے لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوا کرتی تھی یا ہوا کرتی ہیں اور اگر کوئی لڑکا اس دوران کسی گھر میں پیدا ہو جاتا تھا یا ہو جاتا ہے اور وہ بڑا ہو کر کوئی کمزور حرکت کر جاتا تھا یا کرتا ہے تو ان کے لئے یہ طعنہ کافی تھا یا ہے کہ وہ ایسا کمزور کام کیوں نہیں کرتا وہ پیدا ہی لڑکیوں کے سیریز میں ہے۔  بالکل اس کے مخالفت میں اگر لڑکوں کے سیریز میں کوئی لڑکی پیدا ہوتی تھی یا ہوتی ہے اور وہ کوئی لڑکوں والی حرکت کرتی تھی یا کرتی ہے تو اس کے لئے بھی یہ کہا جاتا تھا یا ہے کہ کیوں نہ وہ لڑکوں کا چال چلن نہ کرے جو پیدا ہی لڑکوں کی سیریز میں ہے۔  اس طرح ایک اور ٹپہ ہے پہ پلار میں بلہ جرگہ اوکڑا کہ در یہ نہ کڑم د ملا پہ بانگ بہ زونہ  میرے باپ پر ایک اور جرگہ بٹھا دو ایک بار اور ان کی منت سماجت کرو اگر اس بار بھی اس نے ہاں نہیں کی تو پھر صبح ملا کی پہلی اذان پر دونوں نکلیں گے۔  اس کے جواب میں لڑکے کی طرف سے ٹپہ ہے سبا مے ستاسو کرہ وجنی غولے جاروکہ چے پہ شڑ مے وینے زینہ۔ یعنی کل مجھے تیرے گھر کے آنگن یا صحن میں ذبح ہونا ہے لیکن اتنا کر کہ اپنے گھر کے صحن کو خوب جھاڑو لگاؤ تاکہ میرا خون رکے نا اور بڑے روانی سے بہے۔  یعنی لڑکے کو پتہ ہے کہ یہ منصوبہ ناکام بھی ہو سکتا جس کا انجام پھر بے دردی سے موت ہے لیکن جب وعدہ ہے تو پھر نبھانا ہے بھلے جان بھی چلی جائے۔  اس طرح ایک اور ٹپہ ہے۔ د لیونو سپو نہ راتیر شہ پہ خونڑو چڑو بہ زہ در اوخیجمہ لڑکی اپنے محبوب سے کہتی ہے بھلے راستے میں پاگل کتے ہوں اس کو ضرور پار کر کے آنا ہے۔ ادھر میں بھی توپ و تفنگ، سنگینوں اور خونخوار تلواروں اور خنجروں کو پار کرتی ہوئی آؤں گی۔ پھر جب لڑکا نہیں آتا ہے۔ تو لڑکی کس طرح طعنہ مارتی ہے اس کا الگ ایک ادبی لذت اور چاشنی ہے۔ تر نیمے شپے پورے رانغلے پہ ما دے سپی لہ ماذیگر تڑلی وونہ تم تو آدھی رات تک نہیں آئے! اور تم نے مجھ سے سر شام کتے بندھوا لئے تھے۔  گاؤں میں اکثر گھریلو خطرناک کتوں کو باندھ لیا جاتا ہے اگر ان کے گھر میں کوئی باہر سے آنے والا ہوتا ہے۔ اور خاص طور پر یہ کتے شام کے بعد آزاد چھوڑ دیے جاتے ہیں اور دن بھر بندھے رہتے ہیں تاکہ کسی کو کاٹ نہ لیں۔  مطلب کاروکاری یا تور یا تورا ایک اچھا عمل نہیں ہے جس میں کبھی کبھار بے گناہ لڑکا یا لڑکی بھی مارے جاتے ہیں یا پھر پیسے یا زمیں یا پھر کسی دوسرے نفع حاصل کرنے کے لئے یہ عمل کیا جاتا ہے جس کی مذمت اور مزاحمت دونوں ادب میں بڑی بہترین پیرائے میں تخلیق کیا گیا ہے۔ جو تاریخ بھی ہے ثقافت بی ہے، رسم بھی ہے، رواج یا روایت بھی ہے اور اخلاق اور بد اخلاقی بھی ہے لیکن چونکہ ادب کا تعلق زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے ہے تو اس لئے ادب اس عمل کو زیر بحث لائے بغیر پایہ ثتک نہیں پہنچ پاتا اور ثقافت کا ایک بہت بڑا حصہ تشنہ اور ادھورا رہتا۔

ليست هناك تعليقات

Hi