افسانہ مسکراہٹ میری اور تبسم کی جوڑی کوئی ایسی آئیڈیل جوڑی تو نہیں تھی کہ جس کی مثال دی جاتی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے یا نہیں اس بار...
افسانہ
مسکراہٹ
میری اور تبسم کی جوڑی کوئی ایسی آئیڈیل جوڑی تو نہیں تھی کہ جس کی مثال دی جاتی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم دونوں ناخوش تو بالکل نہیں تھے۔ اس کی وجہ شاید تبسم کے چہرے پر پھیلی رہنے والی مسکراہٹ تھی۔
مجھے اج بھی یاد ہے جب میری اور تبسم کی شادی ہوئی تھی۔حجلہ عروسی میں قبول صورت سی تبسم کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا ،وہ اس کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ تھی۔ اس نے میرے ہر سوال کا جواب مسکراہٹ کے ساتھ دیا؛ کبھی یہ مسکراہٹ گہری ہو جاتی، کبھی مدھم؛ لیکن موجود رہتی. وقت گزرتا رہا, ہم میاں بیوی سے ماں باپ بن گئے۔ بچوں کی ذمہ داریوں میں مشغول ہو گئے۔ عشق و محبت کی چاہت کہیں پیچھے چھوٹ گئی، نہ چھوٹی تو تبسم کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ۔
تبسم فطری طور پر ایک کم گو لڑکی تھی۔ میری ماں کے تیز و تند جملوں کے جواب میں بھی صرف اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ مسکراہٹ دکھ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی جسے صرف میں محسوس کر سکتا تھا. ماں کو کبھی کبھی اس کی مسکراہٹ سے چڑ ہونے لگتی ۔ ماں اکثر کہتی، کوئی ہر وقت کیسے مسکرا سکتا ہے؟ تبسم میری بہن سے کوئی ایک دو سال ہی بڑی ہوگی جن باتوں پر میری بہن کھلکھلا کر ہستی، ان باتوں پر بھی تبسم صرف مسکرانے پر اکتفا کرتی ۔ ہاں لیکن اس کی اس مسکراہٹ میں صرف اس کے ہونٹ ہی نہیں اس کا پورا چہرہ شامل ہوتا، وہ پورے چہرے کے ساتھ مسکراتی۔
جب میری تیسری بیٹی پیدا ہوئی اور ماں نے اسے گود میں لینے تک سے انکار کر دیا تب بھی تبسم نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ مسکراتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں تیرتی نمی نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھا تو اس نے مسکرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ میں اس کی آنکھوں میں امڈنے والے جذبات کو نہیں دیکھ سکا اور نہ ہی اس کی مسکراہٹ کو کوئی معنی دے سکا۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ ماں کے طعنوں کے تیر تبسم اپنی مسکراہٹ کی ڈھال پر روکتی رہی۔ یہاں تک کہ جب ماں بات بے بات میری بیٹیوں کو دو ہاتھ جڑ بھی دیتی تب بھی وہ نظریں جھکائے مسکراتی رہتی۔ اگر کوئی بچی صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوشش بھی کرتی تو آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے منع کرتی ، اس وقت اس کی مسکراہٹ مدہم ہو جاتی اور آنکھوں میں تنبیہہ نظر آنے لگتی۔ جس دن ابراہیم پیدا ہوا ، اس دن تبسم کی مسکراہٹ دیدنی تھی۔ میں نے اسے ہونٹوں سے مسکراتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور پورے چہرے سے مسکراتے ہوئے بھی۔ میں نے اس کی آنکھوں کو مسکراتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور اس کی بھنووں اور پلکوں کو بھی مسکراتے ہوئے دیکھا تھا، مگر بیٹے کی پیدائش پر تو اس کا پورا وجود مسکرا رہا تھا۔ آج اس کا پیٹ بھی مسکرا رہا تھا۔ آج تو ماں نے بھی تبسم کا ماتھا چوم لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے فوراً بعد تبسم کے ماتھے نے مسکرانا چھوڑ دیا اور مسکراہٹ کی جگہ شکنوں نے لے لی تھی۔ یہ چیز میرے لئے حیران کن بھی نہ تھی ماں کا رویہ ہی ایسا تھا۔ لیکن تبسم کے ہونٹوں کی مسکراہٹ برقرار تھی، جسے اماں شاید بیٹے کی پیدائش کی خوشی سمجھ رہی تھی ۔ میں نے اتنے سالوں میں تبسم کی مسکراہٹ کے کئی رنگ دیکھے تھے میں اس کی ہر مسکراہٹ کو سمجھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ مسکراہٹ بیٹے کی پیدائش کی خوشی نہیں، ماں کے رویے پر طنز ہے.
جب ماں ابراہیم کی ننھی شرارتوں پر کھلکھلا پر ہنستی تو تبسم بھنویں اچکا کر مسکراتی۔ جب ماں ابراہیم کے پیچھے دوڑنے کی کوشش کرتی تبسم تو کندھوں کو ہلکا سا جھٹک کر مسکراتی اور سر کو جھکا لیتی۔ میں تبسم کی مسکراہٹ کی ہر شکل کو خوب سمجھتا تھا۔ جب بچیاں کھیلتے ہوئے ایک دوسرے سے لڑنے لگتیں تو وہ ایک ابرو اٹھاتی اور مسکراتے ہوئے سر ہلاتی ۔ جب اسے بہت غصہ آتا تو اس کی آنکھیں پھیل کر بڑی ہو جاتیں اور وہ ہونٹوں کو بھینچ کر مسکراتی۔
آج ماں کا چہلم تھا۔ مہمان رخصت ہو چکے تھے۔ میں جو گزشتہ چالیس دنوں سے غم کے ساتھ ساتھ حیرت کا شکار تھا، آج تبسم سے بات کرنے کا ارادہ لئے کمرے کی جانب چلا۔ ابھی دروازے سے کچھ دور ہی تھا جب میں نے تبسم کی کھلکھلاتی ہوئی آواز سنی۔ وہ بڑی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اگر مشکلات کو خندہ پیشانی سے مسکرا کر جھیل لو تو ان کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ اور صبر کا انعام مل جاتا ہے۔ پریشانیاں خوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
بالکل ویسے ہی، جیسے دادی کے مرنے کے بعد آپ کی پریشانیاں خوشیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں؟ بیٹی نے بات کو سمجھنے کے انداز میں کہا۔
ہاں!!! بالکل تبسم کی مسرت سے بھرپور آواز ابھری
اور میری الجھن ختم ہو گئی۔ میں جو چالیس دن سے پریشان تھا کہ اماں کے مرنے پر تبسم رو تو رہی تھی۔ مگر سر کے بالوں سے لے کر پیر کی ایڑی تک اس کا رواں رواں مسکرا رہا تھا۔
انیلہ افضال ایڈووکیٹ
کوئی تبصرے نہیں
Hi