یونہی بے ربط سے فقرے تھے اور باتیں سراسیمہ نجانے کس لئے کل شب تھیں وہ آنکھیں سراسیمہ نئی اک کربلا ہر دن بپا ہوتی ہے بستی میں دعائیں خون آل...
یونہی بے ربط سے فقرے تھے اور باتیں سراسیمہ
نجانے کس لئے کل شب تھیں وہ آنکھیں سراسیمہ
نئی اک کربلا ہر دن بپا ہوتی ہے بستی میں
دعائیں خون آلودہ ہیں اور آہیں سراسیمہ
وہ دیکھو اس شجر کا حال بھی کچھ مجھ سے ملتا ہے
کہ پتے زرد گل افسردہ ہیں شاخیں سراسیمہ
بچھڑتے وقت کے منظر کی وہ تاثیر زہریلی
کہ اس ساعت کی ہیں اب تک سبھی یادیں سراسیمہ
کہاں پر لا کے چھوڑا کارواں کو رہنماؤں نے
منازل کہر میں گم اور ہیں راہیں سراسیمہ
کیلنڈر ہی بدلتے ہیں فقط ورنہ تو ہیں عارف
وہی وحشت زدہ صبحیں وہی شامیں سراسیمہ
محمد عارف نسیم فیضی
کوئی تبصرے نہیں