اَمرتا پریتم نے ساحر لدھیانوی کو ٹُوٹ کر چاھا، مذھب تھا یا ساحر کا لا اُبالی پن اُن دونوں کی شادی نہ ھو سکی۔ ساحر کے انتقال کے بعد امرت...
اَمرتا پریتم نے ساحر لدھیانوی کو ٹُوٹ کر چاھا، مذھب تھا یا ساحر کا لا اُبالی پن اُن دونوں کی شادی نہ ھو سکی۔
ساحر کے انتقال کے بعد امرتا نے زندگی کے باقی ماندہ دِن امروز کے ساتھ گزارے. امروز ایک پینٹر جو امرتا کی آنکھوں کے عشق میں مبتلا تھا اور آ خری وقت تک اس کی دیکھ بھال کچھ سیواکاریاں ھی کرتا رھا۔ وہ ان لوگوں میں سے ھے جو صرف محبت دینا جانتے ھیں ، معکُوس رابطوں پہ ایمان نہیں رکھتے۔ جب سے امرتا گئی اُس نے بھی برش اور کینوس کو ھاتھ نہیں لگایا۔
یوں تو یہ گھر چالیس برس کی رفاقت کی بہت سی یادوں سے اٹا پڑا ھے مگر ایک نظم ہے جو امرتا نے خاص امروز کے لئے کہی۔امروز کی کل کائنات ھے۔
”میں تینوں فیر مِلاں گی“
میں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نئیں
شاید!!
تیرے تخیل دی چِھنڑک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ھورے !! تیرے کینوس دے اُتے
اک رھسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی
یا ھورے !! سُورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں وچ گھُلاں گی
یا رنگاں دیاں باھنواں وچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نُوں ولاں گی
پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور مِلاں گی
یا ھورے !! اِک چشمہ بنڑیں ھوواں گی
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا اے
میں پانی دیاں بُونداں
تیرے پِنڈے تے مَلاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی
میں ھور کج نئیں جانندی
پر اینا جاندی آں , کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹُُرے گا
اے جسم مُکدا اے
تے سب کج مُک جاندا اے
پر چیتیاں دے دھاگے
کائناتی کنڑاں دے ھوندے
میں انہاں کنڑاں نُوں چنڑاں گی
تاگیاں نُوں ولاں گی۔
تے تینوں میں فیر ملاں گی۔۔
امرتا پریتم کا “آخری خط ” جو اس نے اپنے محبوب ساحر لدھیانوی کو اس کے مرنے کے بعد لکھا تھا
امرتا کا یہ خط ایک ادبی معراج ہے ،جہاں نصیب والے ہی پہنچتے ہیں
” میرے محبوب ویسے تو جب بھی کوئی نغمہ لکھنے لگتی ہوں ، مجھے محسوس ہوتا ہے میں تم کو خط لکھنے لگی ہوں لوک گیتوں کی گوری کبھی کوؤں کو قاصد بناتی ہے، اور کبھی کبوتروں کے پیروں میں پیغام لپیٹ دیتی ہے ۔پرانے وقت اب گزر گئے ، جب کوئی برہن
وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو کسی چٹھی رساں کے قدموں کے سراغ لیتے ہیں ۔مگر جب ۔۔ کسی کو خط ڈالنا ممکن نہ ہو تو اس وقت صرف ہوایئں ہی رہ جاتی ہیں جن کے پلو میں کوئی پیغام باندھ دیں ۔۔ کوئی میگھ جیسے کالی داس کا نامہ بر بن گیا تھا ، میرا ہر نغمہ میرا ایک خط بن گیا ہے ۔۔”
“مجھے یاد پے جب میں نے پہلے تمہیں لکھا تھا ، ایک بیگانہ گاؤں تھا اور میں سوچنے لگی تھی کہ گاؤں بیگانہ ہے مگر تم کیوں بیگانے نہیں ”
ایک دن میرے گھر کی دہلیز کو تمہارے قدموں نے چھوا ۔۔ میں نے تمہاری آواز سنی تو مجھے محسوس ہوا ،، جس ہوا میں تمہاری سانس ملی ہے اس میں ایک مہک آ نے لگی ہے
ایک دن تم آئے ، تمہارے ہاتھ میں کاغذ تھا ، میں نے کہا پڑھ کر سناؤ گے ؟ اور تم نے اپنا نغمہ پڑھ کر سنایا۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ تمھاری آواز جیسی میں نے کبھی آواز نہیں سنی ۔۔ تمہارے نغمے جیسا میں نے نغمہ نہیں سنا ۔۔
” میں پھر آ ؤنگا ” یہ زندگی میں تم نے پہلا قول دیا تھا ۔۔
مجھے زندگی میں تمہارا پہلا خط ملا ” میں تیس تاریخ کو آؤنگا ۔۔ مجھے لگا جیسے میرے انتظار میں تمہاری ایک ہی سطر نے رنگ بھر دئے ”
پھر کبھی تمہارا خط نہیں آیا ۔۔
میرے محبوب میں آج تمہیں آخری خط لکھ رہی ہوں ۔۔ اس کے بعد کبھی نہیں لکھونگی ۔۔ اور جب تم میرے جنگلی گیتوں کو پڑھو گے تو یہ نہ سوچنا کہ میں تمہیں خط لکھنا بھول گئی ہوں ۔۔ میں ان ہاتھوں سے صرف جنگلی گیت لکھونگی اور ایک نئی صبح کا انتظار کرونگی جو سیاہ نظام کو بدل دے ۔۔دنیا کے اس نظام کو بدل دے جو شکاریوں اور لیٹروں کو پیدا کرتا ہے اور اگر میری زندگی میں وہ نئی روشن صبح آئی تو میں تمہیں اپنے پیار کا سنہری خط لکھونگی ۔۔ !
(آج جب ساحر دنیا میں نہیں اور " تلخیاں کا ایک نیا ایڈیشن چھپ رہا ہے تو اسکے پبلشر نے چاہا کہ اس کا دیباچہ لکھ دوں۔ نظموں کے بارے میں کچھ نہیں کہونگی کہ ساحر کی شاعری کا مقام لوگوں کی روح اور تاریخ کی رگوں کا حصہ بن چکا ہے۔ مجھ پر ساحر کا قرض تھا ۔ اس دن سے جب اس نے اپنے مجموعہ کلام پر دیباچہ لکھنے کو کہا اور مجھ سے لکھا نہیں گیا۔ آج وہی قرض اتار رہی ہوں ۔ اس کے جانے کے بعد ، دیر ہوگئی ،
خدایا بہت دیر ہوگئی ”
(امرتا پریتم)
ليست هناك تعليقات
Hi