وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے اِسی کو موت کہتے ہیں تو یا رب بار بار آئے سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن...
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے
اِسی کو موت کہتے ہیں تو یا رب بار بار آئے
سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے
وہاں منہ پھیر کر رونا جہاں میرا مزار آئے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسو ندامت کا
جسے دامن پہ لینے رحمتِ پروردگار آئے
قفس کے ہو لئے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
نہ جانے کیا سمجھ کر چُپ ہوں اے صیّاد میں ورنہ
وہ قیدی ہوں اگر چاہوں قفس میں بھی بہار آئے
قمر دِل کیا ہے میں تو اُن کی خاطر جان بھی دیدوں
مِری قسمت اگر اُن کو نہ پھر بھی اعتبار آئے
استاد قمر جلالوی
ليست هناك تعليقات
Hi