لٹون : ( پشتو افسانہ ) تحریر : فہمیدہ کمال اردو ترجمہ : کھوج ماخام خٹک بمعرفت : حضرت زبیر زبیر خاکسار منزل مردان سہ ماہی گلبڼ ادبی سلسلہ...
لٹون : ( پشتو افسانہ )
تحریر : فہمیدہ کمال
اردو ترجمہ : کھوج
ماخام خٹک
بمعرفت : حضرت زبیر زبیر
خاکسار منزل مردان
سہ ماہی گلبڼ ادبی سلسلہ نمبر 3
جولائی تا ستمبر 1998
پوری دنیا میں زندگی معمول کی طرح رواں دواں تھی ۔ کہیں دن تو کہیں رات ، کہیں گرمی سے لوگوں کے جسم جل رہے تھے تو کہیں سردی ، ٹھنڈی ہوائیں اور برف باری ، کہیں جنگ تو کہیں امن ۔
ساری دنیا کی اقوام، ریاستیں اور مملکتیں اپنی روشن مستقبل کے منصوبوں میں مصروف عمل تھیں ۔ اوپر فضا میں کم و کاست دو سو ممالک کے طیارے لاکھوں مسافروں سمیت یہاں سے وہاں اڑ رہے تھے ۔ ہوا سے بھی اوپر خلا میں ، بے شمار مواصلاتی سیاروں کے علاوہ روس کی " میر سٹیشن " اور امریکن " ڈسکوری " بھی زمین کے گرد گھوم رہے تھے ۔ کہ اچانک روس اور امریکہ نے اپنے اہنے زمینی خلائی مراکز میں ایک ہی وقت میں ۔۔۔۔۔۔ کمپیوٹرز کی سکرینز پر خلا میں مصروف خلابازوں کی یہ بات مطالعہ کی کہ " ہماری زمین کی کہکشاں کے ایک طرف سے ۔۔۔۔۔۔ ایک نامعلوم ستارہ ( دنیا ) کی طرف سے تین خلائی راکٹس آرہے ہیں ۔ ان راکٹوں کی رفتار جو روشنی کی رفتار کا نصف ہے ، ٹھیک بارہ گھنٹے بعد ہماری زمین کے مدار میں داخل ہونے والے ہیں ۔ آٹھ گھنٹے بعد جب یہ راکٹس ہمارے قریب آجائیں گے تو ہم اپنے حساس کمپیوٹرز آلات کی وجہ سے جان جائیں گے کہ ان نامعلوم راکٹس میں ایک دوسری دنیا کی مخلوق خلاباز ہیں یا نہیں ۔؟ لیکن یہ بات مستند ہے کہ ان راکٹس کی " منزل " بھی ہماری زمین کی جانب ہے ۔ اور پھر یہ بات کچھ ہی لمحوں میں مواصلاتی ، برقی الات ، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے زریعے مختلف ممالک اور ریاستوں کی خبر رساں ایجنسیوں نے ساری دنیاں میں پھیلا دی ۔ معمول کے اخبارات کے علاوہ اربوں کھربوں کی تعداد میں ضمیمے بھی چھپے ۔ برسہا برس سے خلائی اور فلکی ماہرین کا جو خیال تھا کہ " ہماری اس لا محدود وسعت میں کہیں ایک اور مخلوق اور ایک اور دنیا بھی اباد ہے " آج زمین پر خلا سے پہنچی ہوئی خبر نے ان سائنسدانوں کے خیال اور مفروضے کو حقیقت مین بدل دیا تھا۔ ٹیلی وژن اور ریڈیو پر فلکی اور کائناتی ماہرین کے بحث مباحثے شروع ہوگئے ۔ ساری دنیا پر ایک عجیب طرح کی حیرت اور خوف کی ڈراونی بلا بیٹھ گئی ۔ ملکوں کے صدور اور وزرات اعظمی نے خارجی دورے منسوخ کر دیے ۔ وہ اپنی رعایا کے قریب آگئے ۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان سے خطاب کیے ۔ عوام کو تسلی دی کہ " فی الحال نہ تو ہمیں کوئی معلومات ہیں اور نہ کوئی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ نامعلوم راکٹس اور یا ان راکٹوں میں اگر کسی دوسری دنیا کے کوئی مخلوق ہو تو ہماری زمین تک ان کے آنے کا کیا معنی اور مقصد ہے۔ ؟ لیکن ہماری جدید سائنسی تیکنیک اور ہنر ، ہماری جدید ایٹمی عسکری قوت یہ استعداد صرور رکھتی ہے ۔ کہ ہم ہر قسم کے حالات میں ، اپنے وجود ، اپنے وطن ، اپنی رعایا اور اس زمین کی وسعتوں کی حفاظت کر سکیں ۔ کسی کو کسی بھی طرح سے کوئی تشویش نہیں کرنی چاہئے ۔۔۔۔۔ بہت جلد ہمین علم ہو جائے گا کہ یہ نامعلوم راکٹس جو ہماری طرف آرہے ہیں کیا مقصد اور کس منشا سے آرہے ہیں " ساری دنیا کے چھوٹے بڑے مدرسوں ، مکتبوں ، یونیورسٹیوں کو تالے لگ گئے ۔ اوپر فضا سے مسافر طیارے اپنے یا خارجی ہوائی اڈوں پر اتر گئے ۔ ساری دنیا کے سڑکوں اور سمندروں کی گاڑیاں اور آبی جہازوں کے نقل و حمل ساکت ہوگئے۔ سارے کاروبار ، مارکیٹس اور تجارتی منڈیاں بند ہوگئیں ۔ ہر کوئی دنیا کے جس جگہ اور مقام پر تھا ریڈیو اور ٹی وی کے آواز کے لیے اپنے کان کھولے رکھے ہوئے تھے ۔ ساری دنیا کا ہر باشندہ چاہتا تھا کہ وہ خود کو آگاہ کرے کہ ان راکٹس میں کوئی نامعلوم مخلوق بھی ہے کہ نہیں ؟ اور پھر ٹھیک آٹھ گھنٹے بعد " میر سٹیشن " اور " ڈسکوری " خلابازوں نے اپنے اپنے زمینی مراکز کو اطلاع دی کہ " ٹھیک چار گھنٹوں بعد ہماری جانب آنے والے یہ نامعلوم راکٹس یا دوسری دنیا کی یہ نامعلوم مخلوق ہماری زمین کیے " مدار " میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے ۔ ہمارے سوپر کمپیوٹر کے تجزیوں کے مطابق ان راکٹس میں کسی قسم کی مخلوق یا خلاباز موجود نہیں ہے ۔ لیکن ہم اس وقت تک ( چار گھنٹوں ) مستند نہیں سمجھ سکتے جب تک یہ نامعلوم خلائی راکٹس ہمارے مدار تک پہنچ نہ گئے ہوں ۔۔۔۔۔ غالب گمان یہ ہے کہ ہمارا " سوپر کمپیوٹر " ان راکٹوں کے درست تجزیہ کرنے سے قاصر بھی ہو۔ کیونہ یہ راکٹس کچھ اس طرح کے " میٹل " اور دیگر اجزا رکھتے ہیں جس کا وجود ہماری زمین پر موجود نہیں ہے ۔ ( یعنی ہمارے کمپیوٹر کا برقی سگنل ان راکٹوں کی مادی ترکیب سے نہیں گزر سکتا ) ۔ نیچے دنیا میں اس تازہ خبر کے پہنچنے پر ، ساری دنیا کی تشویش دو چند ہوگئی ۔ ٹی وی اور ریڈیو پر ساری دنیا کے فلکی ماہرین کے بحث مباحثوں کے باوجود کوئی کسی بھی قسم کی رائے قائم نہیں کر سکتا تھا ۔ کہ یہ راکٹس کائنات کے کونسے ستارے سے آرہے ہیں ۔ یا پھر یہ کہ یہ ستارہ مخلوق کی زندگی کہ کونسہ گیسوں ، مالیکیولز ، پروٹان اور نیوٹران سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن سارے ماہرین اس بات پر ضرور متفق تھے کہ یہ دنیا یا یہ مخلوق کائنات کے کسی بھی کونے میں ہوں تو ہر لحاظ سے ( خصوصا" سائنسی ترقی ) کے لحاظ سے ہم سے بہت آگے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے ہمیں یا ہماری زمین پیدا کی ہے نہ کہ ہم نے ان کو ۔۔۔۔ بہت پہلے المانی ( جرمن ) ماہر فلکیات کہہ چکے ہیں کہ اس لا محدود کائنات میں " شیطانوں اور فرشتوں کی دنیا بھی ہے " اس وقت اس ماہر فلکیات اس نظریے یا مفروضے کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی لیکن آج بعض فلکی علماء نے ساری دنیا کے لوگوں کو عیاں کر دیا کہ " آج ہم مجبور ہیں کہ اپنے اس المانی ماہر کے نظریے پر غور فکر کریں ، کہ واقعی یہ راکٹس جو ہماری جانب آ رہے ہیں کہیں فرشتوں کے نہ ہوں ۔۔۔۔۔ تو پھر یہ ہماری ساری دنیا کے لیے ، ہمارے وجود اور رعایا کے لیے خوشبختی کا سبب ہو سکتے ہیں ۔ اور اگر خدا نخواستہ یہ راکٹس شیطانوں کے ہوں ۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔ !! وہ مذہبی علماء جنھوں نے مذہبی کتابوں کے حوالے سے دنیا کے مستقبل اور انجام کے بارے میں مضبوط اور پکے عقائد رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ تو ان کے بھی اوسان خطا تھے ۔۔۔۔۔ اتنے پریشان تھے کہ کسی بھی قسم کے فیصلے دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن پھر بھی بعض مذہبی اور بنیاد پرست علماء نے فتوے جاری کر دیے ۔ ہمارے عالموں نے پرانے مذہبی کتابوں اور اللہ تعالی کی طرف سے بھیجءے گئے پیغمبروں کی باتیں درست طریقے سے تشریح ہی نہیں کئے ہیں ۔ ورنہ آج ہم ان راکٹوں کے آنے یا پھر دوسری دنیا کی مخلوق کے بارے میں ضرور جانتے ہوتے ۔ چار گھنٹے بھی گزر گئے ۔ اور جیسے ہی یہ راکٹس ہمارے زمین کے مدار میں داخل ہوگئے تو زمین کے خلائی مراکز کے سوہپر کمپیوٹرز کی سکرینز خود بخود روس میں روسی زبان میں اور امریکہ میں امریکن حروف ۔۔۔۔۔ ان نامعلوم راکٹوں کی جانب سے پیغام پھیل گیا ۔ جو ساری دنیاں کے لوگوں کو الگ الگ اپنی اپنی زبانوں میں ٹی وی اور ریڈیو کے توسط سے براہ راست نشریات میں شائع اور سنایا گیا ۔ ہم تمھاری دنیا کے مدار میں آپ کے حساب کے مطابق تین سال کا لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں۔ ہمارے راکٹس کی خلائی رفتار روشنی کے نصف کے برابر تھا ۔ ہم نے جب تمھارے سالوں کے حساب کے مطابق پچاس سال پہلے پتہ چلایا تھا کہ رعایا سے اباد دنیا کے علاوہ آپ کی بھی اباد دنیا ہے ۔ ہم نے گزشتہ پچاس سالوں کی انتھک محنت اور ریسرچ کے بعد ہم نے آپ کی دنیا سے متعلق معلومات اکھٹے کیے ۔ اس ریسرچ کے ساتھ کہ آپ کے ساتھ رابطہ یا پیغام رسانی کونسی زبان میں کی جائے ۔ چونکہ ہمارے اور تمھارے ممالک کے مابین انتھا کی حد تک زیادہ فاصلہ ہے ۔ اس لیے ہماری تیکنیک اور ہنر اس قابل نہیں کہ ہم خود تمھاری دنیا میں آئے ۔ اپنے منتخب اہداف کے مطابق ہماری آمد ( تمھاری دنیا ) میں کہیں صدی پون صدی بعد ممکن ہو سکے گا ۔ لیکن ہم نے اپنی دنیا میں ایک ایسے خطرناک اور وحشت ناک مسئلے سے دوچار ہوئے کہ فیصلہ کر ڈالا ۔۔۔۔۔ کہ اب ہم اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطر یہ اپنے "خود کار " راکٹس ہنگامی طور پر آپ کے ہاں بھیج دیں۔ یہ پیغام جو تم ہمارے ہاں سے اپنے کمپیوٹرز پر روسی اور امریکن زبانوں میں سن رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ فقط ایک پیغام نہیں ہے ۔ بلکہ یہ پیغام ہمارے اور تمھارے زندگی ہمارے اور تمھارے ممالک ہمارے اور تمھارے انسانی فائدے ، بقا اور ارتقا کی خاطر ایک سوال ، التجا اور انتباہ بھی ہے ۔ کیونکہ اس راکٹس میں تین ایسے بم پڑے ہوئے ہیں جو ایک بم آپ کے ایٹم بم کے ہزار بم کے مقدار کے برابر ہے ۔ ہم ان تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہیں جس سے آپ پر یہ ظاہر ہو کہ ہمارے اور تمھارے درمیان کیا کیا تیکنیکی ییچیدگیاں موجود ہیں ۔ لیکن ہمارا ایک مطالبہ ہے جس کے پورا کرنے کے لیے آپ کے پاس سو فی صد امکانات موجود ہیں۔ اگر پورا نہیں کیا تو یہ تینو راکٹس ان تینوں بموں سمیت زمین پر آ گریں گے اور آپ کی یہ ساری دنیا ، مخلوقات اور آبی ذخیرے اس کائنات میں فقط ایک سگریٹ کے دھویں کےی مانند دھواں چھوڑے گا ۔ اور چند ہی لمحوں میں فنا ہو جائیں گے ۔ ہمارا یہ مطالبہ ۔ اگر آپ پورا کر پائے تو نہ صرف تمھاری دنیا کی بوا کی ضامن ہے بلکہ اس مطالبے کے حصول سے ہم انی دنیا اور مخلوقات بھی حفظ و امان میں رکھ سکتے ہیں۔ پندرہ سال پہلے ہمارے ایک ایٹمی ماہر نے اس طرز کے بم ( جس کا ذکر ہم تھوڑی دیر پہلے کر چکے ) بنائے تھے ۔ ہماری دنیا تمہاری دنیا سے سو فی صد بڑی ہے ۔ ان بم بنانے کے بعد ہماری ریاستوں کے سربراہان کو یہ احساس ہوا کہ یہ بم کائنات میں ہمارے وجود کو فنا کر سکتے ہیں ۔ ہماری پوری دنیا کے حکما آپس میں اکھٹا ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ ان بموں کو فورا" ضائع کیا جائے لیکن سائنسی ماہرین کے سامنے ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا اور وہ یہ کہ بم بنا تو گئے لیکن کسی بھی صورت ضائع نہیں ہو سکتے تھے ۔ ہمارے ایک سائنس دان نے بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد معلوم کیا کہ ہمارے اس کائنات میں ہمیں جس دوسری دنیا ( تمھاری دنیا ) کا علم ہے ۔ تو ادھر ایک ملک ہے ایک ریاست ہے۔ ایک دھرتی اور ایک مٹی ہے اگر ہمیں وہاں سے آپ کے حساب سے تین کلوگرم مٹی بھی مل جائے تو ہم یہ اپنے انتہا کی حد تک ضروری بمز بغیر کسی نقصان اور خسارے کے ضائع کر سکتے ہیں ۔ ہمیں مستند علم کا پتہ نہیں چلا کہ وہ " مٹی اور دھرتی " آپ کی دنیا کے کونسے حصے یا پھر کونسے براعظم میں ہے ۔
لیکن اس مٹی یا دھرتی کے خاص خصوصیات ہمارے ہاتھ لگیں ہیں اور اب ہم آپ سے وہی معلومات شئیر کر رہے ہیں ۔ ہونا چاہئے کہ آپ بارہ گھنٹوں کے اندر ہمارے راکٹس اور کمپیوٹرز کو وہ دھرتی اور اس کا مکمل جغرافیہ یا پھر اس کے درست اور مسلمہ سرحدات کے احاطے کے معلومات فراہم کریں ۔ ہمارے خودکار راکٹس کو جیسے ہی یہ معلومات پہنچتے ہیں تو پھر ہمارے یہ راکٹس خود بخود بڑے سکون اور آرام سے بغیر کسی نقصان کے اس دھرتی اور مٹی پر اتر جائیں گے ۔ اور آپ کے اور ہماری دنیا کی بقا کے لیے نہ صرف مٹی اٹھا لیں گے بلکہ واپس،اسی رفتار سے کہکشاں کے وسعتوں سے اپنے ملک کے لیے روانہ ہو جائیں گے ۔ تمھاری کسی بھی قسم کی غفلت یا کوتاہی ہمارے دونوں ملکوں کے مستقبل کو ایک ہیبت ناک اور وحشت ناک انجام میں تبدیل کر سکتا ہے ۔ ہم ایک بار پھر تمھیں یاد دھانی کروا رہے ہیں کہ تمھارے پاس صرف بارہ گھنٹوں کا وقت ہے ۔۔۔۔۔ اس دھرتی اور مٹی کے بسنے والوں کی خاصیتیں اور شعار یہ ہیں۔
۔ یہ کہ جہاں ایک قوم اپنی دھرتی اور مٹی کی خاطر اپنا خون ہر گز نہیں بہاتا ہو بلکہ کچھ پیسوں کی خاطر اپنی دھرتی کی سودا غیروں کے ہاتھوں کرتا ہو۔
یہ کہ جہاں بھائی اپنے بھائی کا خون بہا رہا ہو ۔
یہ کہ جہاں ، بد امنی ، تشدد ، اور وحشت اس حد تک پہنچ گئی ہو کہ ماؤں کی گود سے شیر خوار بچے بارود اور گولیوں سے محفوظ نہیں ۔
یہ کہ جہاں چھوٹے اپنے فوت شدہ یا پھر زندہ بڑوں اور ہیروز پر تہمت لگاتے ہوں
یہ کہ جہاں بھائی اپنی بہن کی رسوائی کی خاطر دوسرے کو جان سے مارتے ہوں ، لیکن دوسرے کی بہن کے ساتھ زنا اور بد سلوکی پر فخر کرتے ہوں
یہ کہ جہاں ایک قوم اپنی دھرتی رکھتا ہو لیکن اس پر اختیار ان کا نہیں ہو
یہ کہ جہاں ایک قوم اپنی زبان رکھتا ہو ۔ لیکن وہ نہ یہ لکھ سکتے ہوں اور نہ یہ پڑھ سکتے ہوں
یہ کہ تمھاری دنیا میں ہمیشہ سیاہ فام سفید فاموں کے غلام رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔ لیکن یہ قوم جو خود سفید اور سرخ فام ہے لیکن غلام سیاہ فام کی ہے ۔
یہ کہ جہاں زندگی جرم ، محبت جرم اور وفا جرم ہو
اور ٹوٹے دلوں کے لیے نگاہ مسیحا جرم ہو
جہاں گویائی ، بینائی اور سانس لینا جرم ہو
جہاں اظہار جرم ہو ، ہنسنا جرم اور رولینا جرم ہو
اور ایک نظر دیکھنا بھی وطن کی محبوبہ پر جرم ہو
اور یاد کرنا مجنون پر چشم لیلی جرم ہو
ساری دنیا کے اربوں لوگوں پر ، لاکھوں عالموں ، ماہرین کو یہ خبر سنا دی گئی ۔ ان راکٹوں کی اس قسم کے مطالبات کے حوالے سے بحث اور وقت ضائع کرنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ۔ اعلان ہو گیا کہ ساری دنیا کا ٹیلی فونک نظام مفت ہوگا ۔ ہنگامی صورت پر دنیا کے ان گنت حصوں میں ایسی ایجنسیوں کے ٹیلی فونک نمبروں کا اعلان اس اطلاع کے ساتھ ہوا کہ اگر کسی کو بھی ان مطالبات کے حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات ہوں تو ہمیں آگاہ کریں ۔ اس خبر کے نشر ہونے کے آدھے گھنٹے بعد انگلستان کے ایک ماہر نے اعلان کر دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں ایک سچے دعوے کے ساتھ ساری دنیا کے باشندوں کو یہ خوش خبری دے رہا ہوں کہ ان نامعلوم راکٹس کے مطلوبہ مطالبات ہم صرف اور صرف مسلمان ملکوں میں ڈھونڈ یا پا سکتے ہیں ۔ اس طرز کے مطالبات یا شعار کی خاصیتیں فقط مسلمان ریاستوں کی پیداوار ہو سکتی ہیں ۔ کسی اور ملک میں ہر گز نہیں ۔ ۔۔۔ ۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے ۔ کہ ہم بہت کم وقت میں اس اسلامی ملک کی پہچان کیسے کریں ؟ - که جغرافیہ اور سرحدوں کی تصویریں اوپر ان راکٹوں کو کمپیوٹر کے راستے حوالے کیا جائے ۔ ساری دنیا کی مخلوقات کی نظریں امت مسلمہ کی جانب پلٹ گئیں ۔ دنیا خوش تو بہت ہوگئی کہ چلو یہ شعار صرف مسلمان ہی رکھتے ہیں ۔ لیکن کس ریاست میں ، کونسے علاقے میں اور کونسی قوم میں ۔ ؟ دو گھنٹوں کے غور و فکر معلومات اور اطلاعات کے بعد ۔ خلائی مراکز تک کمپیوٹر کے راستے چیچن دھرتی اور جغرافیہ اوپر راکٹس تک پہنچایا گیا ۔ لیکن نیچے مراکز جو اوپر راکٹس سے نفی میں جواب آیا ۔ کہ بلکل نہیں ۔ ہماری مطلوبہ خاصیتیں نہ تو اس مٹی یا دھرتی میں ہیں اور نہ اس کی رعایا میں ۔ اور دوسرا یہ کہ یہ تو خود مختیار ملک بھی نہیں ۔ وقت گزرتا گیا ۔ زمین کے خلائی مراکز دنیا کے علماء اور ماہرین کے مشوروں سے بوسنیا ، الجزائر ، صومالیہ ، لیبیا ، عراق ، فلسطین ، لبنان اور کوردستان کے جغرافیے اور نقشے بھی اوپر راکٹس کے حوالے کر دیے ۔ لیکن ان کی طرف سے اثبات کی کسی قسم کے اطلاعات نہیں آئیں ۔ تمھاری مفت میں کوشش اور محنت اپنی جگہ ۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تم لوگوں نے ہمیں جس جس دھرتی کے جغرافیے دیے ہیں ان ممالک کی دھرتی یا مٹی ہم اور آپ کو ہر گز وحشتناک تباہی سے نہیں بچا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہم اپنی انتھائی تحقیق اور علم کے نتیجے میں یہ بات دعوے سے کہ سکتے ہیں ۔ کہ ہمارے مطلوبہ مطالبات کی سر زمین اور لوگ آپ کی زمین پر ضرور موجود ہیں ۔ دس گھنٹے گزر گئے۔ صرف دو گھنٹے رہتے تھے ۔ ساری دنیا کے بسنے والوں نے اپنا وحشی انجام بہت قریب سے محسوس کیا ۔ سارے علماء اور ماہرین کی سوچ اور فکر کا بھی برا حال تھا ۔ کہ " فرانس " کے ایک ماہر نے ٹی وی پر اپنی رائے شریک کر لی کہ شاید ییہ ملک ، یہ ریاست اور یہ لوگ افغانستان کے ہوں " ۔۔۔۔ لیکن اور بہت سارے علماء اور ماہرین نے اس کے ساتھ بلکل اتفاق نہیں کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ملک ایک قوم کے وطن اور سرحدات کا نام ہے ۔ افغانستان کے تو کہیں بھی سرحدات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جو کبھی کہیں سے آنا جانا چاہیں تو آ اور چلا جاتا ہے ۔ دولت یا ریاست ایک نظام کا نام ہے ۔ جس ملک کا اگر اپنی دھرتی پر کسی ایک کی حکومت ہو اور بیرون ممالک کی سفارت میں کسی اور کی حکومت ہو ۔ تو رعایا تو وہ رعایا ہوتی ہے جو اپنی دھرتی اور اپنی مٹی پر بھاری بھرکم براجمان ہو۔ اپنے بچوں کے آنے والے مستقبل کی فکر میں ہوں۔ افغانستان کے سارے پختون تو پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور دیگر اقوام کی خدمت اور نوکریاں کر رہے ہیں ان کے گلی کوچے اور غحن صاف کر رہے ہیں ۔ جرمن کے ایک ماہر نے پھر ایک رائے ظاہر کر دی ۔ جو کچھ بھی ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ ساری باتین پختون قوم میں موجود ہیں ۔ لیکن نامعلوم راکٹوں کے مطالبات بھی اس قوم میں کہیں نہ کہیں ضرور رخ موڑ رہے ہیں ۔ ضروری یہ ہے کہ افغانستان کا بین الاقوامی مانا ہوا جغرافیہ اور نقشے اوپر راکٹس کو بھیجا جائے ۔ وقت کی کمی کے احساس کے باوجود خیر کسی مزید بحث اور مباحثے کے افغانستان کا نقشہ اوپر راکٹوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ لیکن سالم دنیا کی خوشی اور سکون کا کوئی انتہا نہیں تھا کہ اوپر راکٹوں سے ۔ زمینی خلائی مراکز کے کمپیوٹر پر یہ خبر پھیل گئ کہ " بلکل " اس ملک کا نام جو بھی ہے ہمیں اس ہی ملک کی مٹی چاہئے ۔ یہ مٹی اور اس دھرتی کے لوگ وہ ساری خاصیتیں اور شعار رکھتے ہیں جو ہمیں درکار بھی ہیں ۔ لیکن یہ جغرافیہ اور نقشہ بہت کم ہے ۔ ہمارے راکٹس اس وقت تک سکون اور آرام سے اس مٹی یا دھرتی پر نہیں اتر سکتے ہیں جب تک آپ لوگوں نے ہمیں اس وطن کا" طبعی " جغرافیہ " اور پورے حصے فراہم نہ کیے ہوں۔ " اس خبر کے بعد سالم دنیا خوش تو بہت ہوئی لیکن حیران بھی۔ جغرافیہ دان اور بڑے علماء بہت حیرت کے ساتھ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم نے تو حقیقی بین الاقوامی نقشوں اور مسلمہ جغرافیے کی روشنی میں افغانستان کی وہ پوری مٹی اوپر راکٹوں کو دی ۔ جتنا ہے ۔ لیکن انگلستان کے ایک ماہر نے کہا کہ اوپر نامعلوم مخلوق کے راکٹس کے کمپیوٹر کا کہنا درست ہے ۔ ہم نے افغانستان کا جو نقشہ اوپر راکٹس کے حوالے کیا یے تو بین الاقوام کے دفعات کے مطابق تو درست ہے لیکن طبعی طور پر واقعی کم ہے ۔ ضروری ہے کہ اس جغرافیے کے ساتھ پاکستان کی مٹی سے ایک سالم صوبہ " پختونخوا " اور بلوچستان کے کوئٹہ ، پشین ، ژوب ، چمن ، ہرنائی ، لورالائ وغیرہ سے کچھ حصے شامل کیے جائیں " وقت بہت کم رہ گیا تھا ،نیچے زمین پر جغرافیہ دانوں افغانستان کا نقشہ دوبارہ انگلستانی ماہر کے بیان کے مطابق اور اس مٹی کے ساتھ ترتیب اور ڈزائن کر دیا ۔ اوپر راکٹس جکو جب یہ جغرافیہ مل گیا تو انھوں نے یہ خبر زمین والوں کو دی کہ ننانوے فی صد ہمیں اپنا مطلوبہ جغرافیہ مل گیا لیکن پھر بھی اس نقشے میں ایک فی صد کی کمی رہ گئی ہے ۔ تمھیں چاہئے کہ ہمیں کسی بھی صورت میں یہ جغرافیہ مکمل کر کے دو ۔ ہمارے کمپیوٹری نظام کے مطابق یہ راکٹس بغیر کسی نقصان اور خسارے کے اس مٹی پر نہیں اتر سکتے ہیں ۔ یہ راکٹس اس وقت تک اترنے کا اختیار نہیں رکھتے جب تک ہمیں اس وطن کے عوام کی مٹی کا مکمل نقشہ فراہم نہیں کیا گیا ہو ۔ صرف اور صرف چالیس منٹس کا وقت رہ گیا تھا ۔ ساری دنیا کے بسنے والے ماہرین ، مشاہیر ، اور ساری دنیا کے ممالک کے صدور اور سیاسی سربراہان کی پریشانی دو چند ہوگئی ۔ ہر کسی کے آنکھوں کے سامنے اپنی موت اور اپنی وحشتناک تباہی دکھ رہی تھی ۔ کہ اچانک پاکستان کے ایک کرتے درتے ماہر نے چیخ کر پکارا ۔ " ضلع میانوالی " یہ بھی افغانستان کا حصہ ہے ۔ جغرافیہ کے ماہرین نے بڑی ہیبت اور اجلت سے جلدی جلدی افغانستان کے نقشے کے ساتھ پورا ضلع میانوالی بھی ملا دیا ۔ اور جب اوپر راکٹس کو یہ نقشہ مل گیا تو زمینی خلائی مراکز پر یہ خبر پھیل گئی کہ ہم آپ کو مبار باد اور خیر سگالی کا پیغام دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے مقررہ وقت میں ہمارا مطالبہ پورا کر دیا ۔ کچھ ہی لمحوں میں ہمارے یہ راکٹس بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ اس دھرتی پر اتر جائیں گے اور اس دھرتی کی مٹی کو اٹھا لیا جائے گا ۔ ہم ایک بار پھر آپ لوگوں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ تم لوگوں نے نہ صرف اپنی دنیا بلکہ ہماری دنیا بھی تباہی اور بربادی سے بچالی ۔ یہ تینوں راکٹس افغانستان کی مٹی پر اتر گئے ہر ایک راکٹ نے ایک ایک کلو کی مقدار کی مٹی افغانستان کی سر زمین سے اٹھا لی اور پھر آسمان کی جانب اڑ کے چلے گئے ۔ اپنی دنیا کی جانب ، ان نامعلوم راکٹس کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ روس کی میر سٹیشن اور امریکن ڈسکوری کے کمپیوٹرز کے رینج سے بھی نکل گئے ۔ اس رات سالم دنیا کے باشندوں نے اپنی جان اور اس سارے جہان کی نئی زندگی کی وجہ سے خوشی کس جشن منایا ، ساری دنیا کے حکماء ، صدور اور مشاہیر اور وزراء آگئے ، افغانستان دھرتی کے سرحدی علاقوں کے اردگرد کھڑے ہوگئے ہر کسی نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ افغانستان کی مٹی اور عوام کو ودیت کی ۔ کسی نے بارود ، کسی نے اسلحہ ، کسی نے ٹینکس ، کسی نے رائفلز ، کسی نے لالچ ، کسی نے بدنیتی ، کسی نے وحشت اور کسی نے منافقت ، سب کچھ سب کچ ۔ اتنا کچھ کہ افغان عوام کی اپنے شعار اور مشخص خاصیتوں میں کوئی کمی نہ رہے ، سارے صدور ، مشاہیر ، وزراء ، نامور لوگوں اور ماہرین نے افغان عوام کے لیے بہت زیادہ تالیاں بجائیں ۔۔۔۔۔۔ انھوں نے اپنے اپنے ممالک کی رعایا کی جانب سے افغان عوام کا بہت زیادہ شکریہ ادا کیا ۔ کہ " تم لوگ تو خود ویسے بھی تباہ حال ہو لیکن " شکر " ہے کہ " ہماری " سالم دنیا کو تباہی اور بربادی سے حفظ و امان میں رکھا "
اگلے صبح ہر ملک اور ہر وطن کے اخبارات میں بڑی بڑی " سرخیوں " میں دنیا کی تاریخ میں اس حیرتناک واقعے کے سلسلے میں قسما قسم خبریں چھپ گئیں جس میں یہ خبر بھی موجود تھی کہ" سالم دنیا کے باشندوں پر بارہ گھنٹے " قیامت " گزری لیکن " افغان عوام " کو پتہ ہی نہیں چلا ، وہ اپنے کاروبار میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ وہ ایک دوسرے کے خون بہانے کے کاروبار میں مصروف تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ليست هناك تعليقات
Hi