Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

انور مقصود اپنی ذات میں کئی جہتوں کے مالک ہیں

  پاکستان کے صف اول کے مزاح نگار جناب انور مقصود کو  84 واں جنم دن مبارک ہو! انور مقصود اپنی ذات میں کئی جہتوں کے مالک ہیں۔ وہ ڈرامہ نگار، خ...

 


پاکستان کے صف اول کے مزاح نگار جناب انور مقصود کو  84 واں جنم دن مبارک ہو!


انور مقصود اپنی ذات میں کئی جہتوں کے مالک ہیں۔ وہ ڈرامہ نگار، خاکہ نویس، گیت نگار، میزبان اور مصور ہیں، سب سے بڑھ کر ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑی۔


ان کا خاندان 18 اکتوبر 1948ء کو ہجرت کرکے پاکستان پہنچا، اس وقت ان کی عمر صرف 8 برس تھی۔ ان کے بزرگوں کی نیک نامی اور شہرت کی وجہ سے حیدرآباد دکن کے حاکم نے اپنے کچھ محافظ ان کے ساتھ کردیے، جنہوں نے ان کے خاندان کو بمبئی تک بحفاظت پہنچا دیا۔ بمبئی سے ڈمرہ نامی پانی کے جہاز میں سوار ہوکر یہ خاندان کراچی پہنچا۔

وہ اپنی ہجرت اور اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں ’میں عمر کے جس حصے میں ہوں، اس کے لیے ماضی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں ماضی زندہ رکھتا ہے اور اچھا ماضی تو کمال کی چیز ہوتا ہے۔


’ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ اس وقت زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اچھا وقت بھی گزارا، ویسے بھی زندگی میں خوشی اور غم سے توازن رہتا ہے۔


’زندگی صرف پرسکون ہو تو وہ بھی کوئی بہت مزیدار بات نہیں ہے۔ اُتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں، اس میں پیچ وخم تو آتے رہتے ہیں۔ ایک احساس نے ہمیشہ ستایا کہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم نے نہیں کیا‘۔


انہوں نے ایک نجی ٹیلی وژن کے پروگرام ’ایک دن جیو کے ساتھ‘ میں اپنے پرانے دنوں کی یادوں کا تذکرہ کچھ یوں کیا ‘اس زمانے میں، میں ٹائیاں اور رومال بنایا کرتا تھا اور بوہری بازار میں جا کر بیچتا تھا‘۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو بڑے بڑے گھر خالی پڑے تھے مگر ہمارے بڑوں نے کسی پر قبضہ نہیں کیا، زمین خریدی، ٹینٹ لگا کر رہے۔ کوئی بڑی خواہشات نہیں تھیں، تباہی تو وہاں آتی ہے، جہاں خواہشات بے پناہ ہوں، مگر پیدل سفر کیا۔


انور مقصود کے آباؤ اجداد کے حوالے سے فاطمہ ثریا بجیا پر سید عفت حسن رضوی کی لکھی ہوئی کتاب ’بجیا‘ میں تفصیلات ملتی ہیں، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے، ’دادا قاضی مقصود حسین حمیدی پیشے کے لحاظ سے سرکاری ملازم تھے، انگریز حکومت کے دور میں ان کی انتظامی کارکردگی کے باعث ’خاں صاحب‘ کا خطاب ملا تھا۔ ان کا شمار بدایوں کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا۔


’صدیوں پہلے سلطان التمش کے دور میں ان کے جد امجد قاضی حمیدالدین گنوری بدایوں آئے۔ والد قمر مقصود حمیدی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویشن کیا تھا۔ والدہ کا نام افسر خاتون تھا، جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ وہ اردو اور فارسی کی نثرنگار اور شاعرہ بھی تھیں۔


’ہندوستان میں رہائش کے زمانے میں، نانا کی طرف سے سجائے جانے والی موسیقی کی محفلیں بھی یادگار ہوا کرتی تھیں، جن میں ددن بائی، وملا بائی، سرسوتی بائی، ماسٹر رؤف اور الہ آباد کی نسیم اور نصیر جیسے فنکار شامل ہوتے تھے۔ نانا کا نام سید نثار احمد تھا۔ وہ 35 برس حیدرآباد دکن کی ریاست میں اول تعلقہ دار چیف کمشنر رہے، ان کی سرکاری خدمات کے نتیجے میں نواب کا خطاب بھی دیا گیا، وہ بھی شاعر تھے اور ان کا تخلص ’مزاج‘ تھا۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔


 انور مقصود سمیت 10 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی فاطمہ ثریا بجیا تھیں، جن کا شمار پاکستان کے نامور ڈرامہ نگاروں میں رہا۔


ان کو شامل کرکے دیگر بہن بھائی جنہوں نے مختلف شعبوں میں نام کمایا، ان کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ صغریٰ کاظمی (فیشن ڈیزائنر)، سارہ نقوی (صحافی)، زہرا نگاہ (شاعرہ)، فاطمہ اسما سراج، احمد مقصود حمیدی(بیوروکریٹ)، انور مقصود (ڈرامہ نگار، شاعر، میزبان، مصور)، عمر مقصود حمیدی، زبیدہ طارق (ماہر پکوان)، عامر مقصود حمیدی (فیشن ڈیزائنر)، ان کی اولاد میں بلال مقصود معروف پوپ بینڈ ’اسٹرنگز‘ کے خالق ہیں جنہوں نے کئی برس کوک اسٹوڈیو کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔


اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ ’خاندان بہت بڑا تھا، ان کے ساتھ زندگی بہت عمدہ گزری۔ اب تو اپنے بچوں کی اولاد کے لیے دل زیادہ دھڑکتا ہے۔ میں نے لکھنا اپنی بڑی بہن بجیا سے سیکھا، جو ہماری مدر ٹریسا تھیں۔ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں، وہ اور میں ساتھ ساتھ ہیں‘۔


فاطمہ ثریا بجیا نے انور مقصود کے لیے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ’وہ اب کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے ہر میدان میں اپنی اچھوتی پہچان بنائی‘۔ ان کی بہن زبیدہ طارق کا کہنا تھا کہ ’انور بھائی پورے خاندان کے لیے ایک ایسا کردار ہیں جو ہر دکھ کو اپنی باتوں سے کچھ دیر کے لیے بھلا دیتا ہے’۔


ان کی بیگم عمرانہ مقصود نے ان کی زندگی کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’الجھے سلجھے انور‘ لکھی، جس میں وہ کچھ یوں رقم طراز ہیں، ’میرا اور انور کا ساتھ ماشاءاللہ خوب مزے سے گزرا اور گزر رہا ہے، اونچ نیچ ہر رشتے میں آتی ہے یہی پہچان ہے کہ ہم زندہ ہیں‘۔


معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ان کے لیے کہتی ہیں کہ انہوں نے تو دنیا میں آنے سے پہلے ہی شاید جینا سیکھ لیا تھا۔ انہیں زندگی کو برتنا خوب آتا ہے‘۔


انور مقصود کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم پائیں گے کہ ان کے گھر میں تہذیب و تمدن میں رچا بسا ادبی ماحول تھا۔ انہوں نے اپنے لکھنے کی ابتدا ٹیلی وژن سے کی۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے پہلی مرتبہ طویل دورانیے کا کھیل لکھا۔


ضیا محی الدین شو کے لیے اسکرپٹ لکھا، مگر حقیقی معنوں میں شہرت بعد میں لکھے ہوئے کو ملی، جس میں مزاح کا عنصر زیادہ تھا، ان شہرہ آفاق پروگراموں میں شعیب منصور کی ہدایات میں نشر ہونے والا پروگرام ففٹی ففٹی سرِفہرست تھا۔


اس کے بعد شوشا، سلور جوبلی، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین کو بہت شہرت ملی۔ شاندار ڈرامے لکھے، جن میں آنگن ٹیڑھا، ستارہ اور مہر النسا، نادان نادیہ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔


روزنامہ حریت میں کام کیا، ای ایم آئی ریکارڈنگ کمپنی میں ملازمت کی۔ ایک طویل عرصے سے نجی ٹیلی وژن کے ساتھ بطور ڈائریکٹر وابستہ ہیں۔ وہاں سے نشرہونے والے پروگرام ’لوز ٹاک‘ کو بھی بہت شہرت ملی، جس میں ان کے لکھے ہوئے کرداروں کو معین اختر حقیقت کا روپ دیتے تھے۔


ان کی زندگی کتنی کٹھن رہی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ بقول عمرانہ مقصود ڈان گروپ کے مالک حمید ہارون کے کہنے پر انہوں نے بہت ساری پینٹگز بنائیں، ان کی نمائش ہوئی، اس سے جو رقم جمع ہوئی، وہ حمید ہارون نے انور کو دینے کے بجائے مجھے دی تاکہ اس سے معاشی حالات بہتر ہوسکیں۔ مہینے کے آخر میں اگر گھی، تیل، چینی، ختم ہوجائے تو منگوانا ناممکن سا لگتا تھا، بچوں کی معصوم خواہشات بہت بڑی بڑی لگتی تھیں‘۔


ابھی انور مقصود کا لکھا ہوا اسٹیج ڈرامہ ’کیوں نکالا‘ اسٹیج ہونے جا رہا ہے، جبکہ اس سے پہلے دھرنا اور دیگر ڈرامے بھی اسٹیج ہوچکے ہیں۔ تھیٹر کی دنیا میں انور مقصود نے ایک نئے پہلو سے توانائی منتقل کی ہے جس کا جادو ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں کے نام ان کے لکھے ہوئے خطوط کی سیریز بھی بہت مقبول ہو رہی ہے۔


اس موقع پر یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ انور مقصود اپنی تخلیقی زندگی کے بلند ترین مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔


#HappyBirthday #AnwarMaqsood #Satirist #Host #ScriptWriter #Humorist #actor #SilverJubilee #StudioDhai #StudioPonayTeen #ShowSha #ZiaMojiuddinShow #NadanNadia #LooseTalk #AmmarAlavi #

ليست هناك تعليقات

Hi