چار سدہ: تاریخ، ثقافت، اور سیاست کا آئینہ: چار سدہ، خیبر پختونخواہ کا ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز، اپنی قدیم تاریخ، جغرافیہ، اور پشتون ثقاف...
چار سدہ: تاریخ، ثقافت، اور سیاست کا آئینہ:
چار سدہ، خیبر پختونخواہ کا ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز، اپنی قدیم تاریخ، جغرافیہ، اور پشتون ثقافت کے باعث منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علاقہ ہزاروں سالوں سے مختلف تہذیبوں، حکومتوں، اور ثقافتی اثرات کا گہوارہ رہا ہے۔ چار سدہ کو قدیم دور میں "پشکلاوتی" اور بعد میں پشتو میں "ہشنغر" کے نام سے یاد کیا گیا، جو اس کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
نام کا ماخذ (وجہ تسمیہ)
چار سدہ کا نام اور تاریخی حیثیت مختلف ادوار میں تبدیل ہوئی:
1. پشکلاوتی:
یہ نام قدیم ہندو تہذیب کا حصہ ہے، جس کا مطلب ہے "پھولوں کا شہر" یا "گلابوں کی وادی"۔ ایک تحقیق کے مطابق ’’پشکلاوتی‘‘ کے معنی درج ذیل ہیں:
اردو میں ’’ کنول کا پھول‘‘ ؛ انگریزی میں: Flower of Lotus ؛ پشتو میں: دَ بَرسنډې ګل۔ چونکہ چارسدہ میں دریا زیادہ ہیں جیسے جیندی، خیالے، سردریاب اور ناگمان وغیرہ جن میں آبی پودا ’’کنول‘‘ زیادہ اگتا تھا۔ اور جس کے پھول ایک خوشنما منظر پیش کرتے تھے۔ اس وجہ سے سے (دَ بَرسنډې ګل) کہا گیا یعنی’’ کنول کا پھول‘‘، یعنی Flower of Lotus ۔
پشکلاوتی گندھارا تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا، جو بدھ مت کے دور میں علم و ثقافت کی علامت رہا۔
2. ہشت نگر:
پشتو میں ہشت نگر کا مطلب ہے "آٹھ علاقے" یا "آٹھ ریاستیں"۔ یہ نام اس وقت کا ہے جب یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے پشتون قبیلوں اور ریاستوں میں تقسیم تھا۔
ہشت ریاستیں:
چار سدہ کی آٹھ ریاستیں درج ذیل تھیں:
1. اتمانزئی
2. ترنگزئی
3. رجڑ
4. شبقدر
5. پڑانگ
6. بٹگرام
7. ہری چند
8. ڈاگئی
3. چار سدہ:
جدید نام چار سدہ کا مطلب ہے "چار بڑے قصبے"۔ ان قصبوں میں اتمانزئی، پڑانگ، شبقدر، اور ترنگزئی شامل ہیں۔ یہ نام شاید مغلیہ دور یا اس کے بعد مقامی لوگوں نے رکھا ہو۔
تاریخی حیثیت:
چار سدہ کی تاریخ گندھارا تہذیب سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ خطہ بدھ مت کے پیروکاروں کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں موجود آثار ِقدیمہ، جیسے کہ تخت بھائی، اور مختلف اسٹوپے، اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ علاقہ تعلیم، مذہب، اور تجارت کا گہوارہ رہا ہے۔ تخت بھائی (ضلع مردان) میں پہاڑوں میں ایک چشمہ تھا جہاں بدھ مت کے بڑے بڑے درویش اور عالم بودوباش کرتے تھے اور جہاں اس زمانے میں ’’تڑم بادشاہ‘‘ کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ جبکہ اس کا پایہ تخت چارسدہ تھا۔ تاہم مقدس عبادت گاہ ہونے کی بدولت تخت بھائی تک بادشاہ کے فوجی پھیلے ہوئے ہوتے تھے ۔
1. گندھارا تہذیب:
چار سدہ پشکلاوتی کا مرکز تھا، جہاں بدھ مت کے اسٹوپے، خانقاہیں، اور تعلیمی ادارے موجود تھے۔
2. مسلم فتوحات:
ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم فاتحین، جیسے کہ محمود غزنوی، نے اس علاقے کو فتح کیا۔ اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ، یہ خطہ پشتون تہذیب کا مرکز بن گیا۔
3. برطانوی دور:
برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں چار سدہ نے اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کے مقامی رہنما آزادی کی تحریکوں میں پیش پیش رہے۔
موجودہ جغرافیہ:
چار سدہ خیبر پختونخواہ کے مرکزی علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ دریائے سوات اور دریائے کابل کے کنارے واقع ہے، جو زرخیز زمین اور زراعت کے لیے مشہور ہے۔ اس کا مرکز پشاور سے تقریباً 29 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
1. آب و ہوا:
چار سدہ میں معتدل آب و ہوا ہے، جہاں گرمیوں میں موسم گرم اور سردیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے۔
2. معیشت:
زراعت اس علاقے کی معیشت کی بنیاد ہے، جہاں گندم، چاول، اور گنا جیسی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔
دستکاری، خصوصاً شال سازی، مشہور چارسدوال چپل، رجڑ کی مشہور مٹھائی اور قالین بافی، چار سدہ کی پہچان ہیں۔
ثقافت اور پشتون روایات:
چار سدہ پشتون ثقافت کا مظہر ہے، جہاں قبائلی نظام، روایات، اور مہمان نوازی اہم ہیں۔ پشتون ثقافت میں شامل اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1. زبان اور لباس:
پشتو زبان یہاں کی اہم زبان ہے، جبکہ مرد شلوار قمیص اور واسکٹ، اور خواتین روایتی لباس پہنتی ہیں۔
2. روایات:
جرگہ سسٹم، پشتون ولی (پشتون روایات)، اور مہمان نوازی یہاں کے لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
3. موسیقی اور ادب:
چار سدہ میں پشتو موسیقی، خاص طور پر رباب اور پشتو غزل، مقبول ہیں۔ ادب کے میدان میں یہ علاقہ عظیم شعرا اور ادیبوں کا مرکز رہا ہے۔
سیاسی اہمیت اور قائدین:
چار سدہ نے مختلف ادوار میں اہم سیاسی اور سماجی رہنما پیدا کیے ہیں:
• خان عبدالغفار خان (باچا خان):
عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والے باچا خان چار سدہ کے فخر ہیں۔ ان کی تحریک "خدائی خدمتگار" برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی ایک شاندار مثال ہے۔
• . خان عبدالولی خان:
ولی خان نے باچا خان کے فلسفے کو آگے بڑھایا اور پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
• . حیات محمد خان شیرپاؤ:
حیات محمد خان شیرپاؤ پیپلزپارٹی کے بانیوں میں سے تھے جنہوں نے خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کو متعارف کرواکر کئی سال تک اس پارٹی کو یہاں کی میجر پارٹی کے طور پر لیڈ کیا۔
• . آفتاب احمد خان شیرپاؤ:
آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے مرحوم بھائی حیات محمد خان شیرپاؤ کا مشن آگے بڑھایا اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے کئی بار اس صوبے کے وزیر اعلی، گورنر اور پھر وفاقی وزیر کے عہدے پر خدمات انجام دیئے تاہم بعد انہوں نے اپنی ایک پارٹی ’’قومی وطن پارٹی‘‘ کے نام سے بنائی جو تاحال قائم ہے۔
3. موجودہ سیاست:
آج بھی چار سدہ پشتون قوم پرستی اور سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اس خطے میں ایک نمایاں سیاسی جماعت رہی ہے۔
تاہم مرورِ زمانہ کے ساتھ یہاں جمعیت علماء اسلام، جماعتِ اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی، کسان پارٹی، اور دیگر جماعتیں سیاست کے میدان میں شہسوار رہے ہیں ۔
نتیجہ:
چار سدہ ایک ایسا علاقہ ہے جو نہ صرف اپنی تاریخی حیثیت کی بنا پر منفرد ہے بلکہ اس کی موجودہ ثقافتی، جغرافیائی، اور سیاسی اہمیت بھی بے مثال ہے۔ یہ شہر ماضی کی گواہی دیتا ہے اور حال میں پشتون ثقافت اور روایات کا محافظ ہے۔ یہاں کی زمین، لوگ، اور تاریخ ایک روشن مستقبل کی ضمانت دیتے ہیں۔
مَن ناچیز بندہ بھی اسی جنم بھومی سے تعلق رکھتا ہوں۔
از قلم/
ڈاکٹر جمیل الرحمٰن
استاد ادبیات
ریاض، سعودی عرب۔
کوئی تبصرے نہیں