Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

آج اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی کی 42 ویں برسی ہے

  آج اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی کی 42 ویں برسی ہے  ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ گھر میں ہر طرف...

 


آج اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی کی 42 ویں برسی ہے 


ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ‍ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ‍ درجے بھی پاس کر لیے ہوں۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آ کر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دوکاندار کے وہاں ملازم ہو گئےجو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ‍ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دوکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے۔ لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اتنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔

ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

قدرتاً اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں اس کی مانگ بڑھ‍ گئی۔ اب اس نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ لیکن اسے ان کی کیا پروا تھی، اس نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ‍ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرتناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساحر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔

1947ء سے 1952 تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہوگیا، بلکہ بعض جریدے تو اسی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن اس کے بعد شامت اعمال سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ کہیں کا نہ رہا اور اخیر میں صحیح معنوں میں مرقّع عبرت بن گیا۔

ساغر صدیقی عموماً کسی قبرستان میں یا کسی مزار پر مجذوبوں کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ اسی ماحول میں انہوں نے گھٹیا نشے بھی کرنا شروع کردیے جس کے باعث ان کی صحت بہت جلد جواب دے گئی اور وہ فقط 46 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

ساغر صدیقی کی شاعری کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں خشت میکدہ، لوح جنوں‘ شب آگہی‘ شیشہ دل‘ غم بہار‘ مقتل گلی اور زہر آرزو کے نام شامل ہیں۔

ساغر صدیقی 19 جولائی 1974ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔ ان کے مقبرے پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے

وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں

صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے

ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" اور بے شک ساغر صدیقی بھی انہی خزانوں میں سے ایک ہیں۔

یزدانی جالندھری نے قطعۃ تاریخ وفات کہی:

ساغر نے رخت زیست جہاں سے اٹھا لیا

افسردہ اس کے غم میں ہیں یاران انجمن

وہ شہریار شعر، وہ درویش بے ریا

نظمیں تھیں جس کی مظہر معراج فکر و فن

نعتوں میں جس کی جذبۃ حبّ رسول تھا

غزلوں میں جس کی حسن و جوانی کا بانکپن

یزدانی حزیں نے لب جام رکھ‍ کے ہاتھ‍

تاریخ رحلت اس کی کہی "ساغر سخن"


بند گر ہو نہ تیرا خمیازہ

بھوک ہے زندگی کا دروازہ

.

چارہ گر بانکپن مبارک ہو

زخمِ دل ہو گئے تر و تازہ

.

پوچھ لو تربتوں کے کتبوں سے

دے رہی ہے حیات دروازہ

.

ساحلِ آرزو سے کرتے ہیں

حسرتوں کے بھنور کا اندازہ

.

چند غزلوں کے روپ میں ساغر

پیش ہے زندگی کا شیرازہ

.

ساغر صدیقی


ہم بے خود و سرشار سَدا زندہ رہیں گے

حالات کے میخوار سَدا زندہ رہیں گے

.

کچھ واقفِ آدابِ محبت نہیں مرتے

کچھ صاحبِ اسرار سَدا زندہ رہیں گے

.

احساس کے پھولوں کو خزاں چھو نہیں سکتی

الفت کے چمن زار سدا زندہ رہیں گے

.

ہے اپنا جنوں عظمتِ دوراں کی کہانی

عظمت کے طلبگار سَدا زندہ رہیں گے

.

نسبت ہے جہاں میں غمِ انسان سے جن کو

وہ دیدۂ بیدار سَدا زندہ رہیں گے

.

ہے قصرِ حقیقت میں ترے دم سے اجالا

ساغرؔ ترے افکار سدا زندہ رہیں گے

.

ساغر صدیقی​

جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے

بڑے خلوص سے دل نذر جام کرتا ہے


ہم ہی سے قوس و قزح کو ملی ہے رنگینی

ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے


ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو

ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے


یہ میکدہ ہے یہاں کی ہر اک شے کا حضور

غم حیات بہت احترام کرتا ہے


فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر

یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے


ساغر صدیقی

جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے

بڑے خلوص سے دل نذر جام کرتا ہے


ہم ہی سے قوس و قزح کو ملی ہے رنگینی

ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے


ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو

ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے


یہ میکدہ ہے یہاں کی ہر اک شے کا حضور

غم حیات بہت احترام کرتا ہے


فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر

یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے


ساغر صدیقی

چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے

ان دنوں وقت پہ، حالات پہ پابندی ہے


بکھری بکھری ہوئی زلفوں کے فسانے چھیڑو

مے کشو! عہد خرابات پہ پابندی ہے


دل شکن ہو کے چلے آئے تری محفل سے

تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے


درد اُٹھا ہے لہو بن کے اچھلنے کے لیے

آج تک کہتے ہیں جذبات پہ پابندی ہے


ہر تمنا ہے کوئی ڈوبتا لمحہ ہے

ساز مغموم ہیں نغمات پہ پابندی ہے


کہکشاں بام ثریا کے تلے سوئی ہے

چاند بے رنگ سا ہے رات پہ پابندی ہے


آگ سینوں میں لگی ہے، ساغر و مینا چھلکے

کوئی کہتا تھا کہ برسات پہ پابندی ہے


ساغر صدیقی

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو


یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو


بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے

ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو


آج ہم بھی تری وفاؤں پر

مسکرائیں تو کیا تماشا ہو


تیری صورت جو اتفاق سے ہم

بھول جائیں تو کیا تماشا ہو


وقت کی چند ساعتیں ساغر

لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو


ساغر صدیقی

میں تلخئ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا


اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے

یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا


چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلفِ یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا


میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا


دنیائے حادثات ہے ایک درد ناک گیت

دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا


کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا


ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور

ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا.


ساغر صدیقی

چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے

ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں

مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے


فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے


بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری

مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں

وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


بنامِ زہرہ جبینانِ خطہء فردوس

کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے


ساغر صدیقی

برگشتہء یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے

بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے


تاحّد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں

پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے


جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے


ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے

میرے دل ناداں سے کچھ بھول ہوئی ہے


حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت

زاہد! ترے عرفاں سے کچھ بھول ہوئی ہے


ساغر صدیقی

محبت کے مزاروں تک چلیں گے

زرا پی لیں ستاروں تک چلیں گے


سنا ہے یہ بھی رسم عاشقی ہے

ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے


چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا

زرا اجڑے دیاروں تک چلیں گے


جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو

وفا کی یادگاروں تک چلیں گے


حسین زلفوں کے پرچم کھول دیجئے

مہکتے لالہ زاروں تک چلیں گے


چلو ساغر کے نغمے ساتھ لے کر

چھلکتی جوئے یاراں تک چلیں گے.


ساغر صدیقی

ہم بے خود و سرشار سَدا زندہ رہیں گے

حالات کے میخوار سَدا زندہ رہیں گے

.

کچھ واقفِ آدابِ محبت نہیں مرتے

کچھ صاحبِ اسرار سَدا زندہ رہیں گے

.

احساس کے پھولوں کو خزاں چھو نہیں سکتی

الفت کے چمن زار سدا زندہ رہیں گے

.

ہے اپنا جنوں عظمتِ دوراں کی کہانی

عظمت کے طلبگار سَدا زندہ رہیں گے

.

نسبت ہے جہاں میں غمِ انسان سے جن کو

وہ دیدۂ بیدار سَدا زندہ رہیں گے

.

ہے قصرِ حقیقت میں ترے دم سے اجالا

ساغرؔ ترے افکار سدا زندہ رہیں گے

.

ساغر صدیقی

کوئی تبصرے نہیں