Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

بزم ادب شاعر ہند اور شاعرہ پاک دونوں اپنے ملکوں کے حالات کے ترجمان غلام نبی کشافی سرینگر

  بزم ادب                 شاعر ہند اور شاعرہ پاک         دونوں اپنے ملکوں کے حالات کے ترجمان غلام نبی کشافی سرینگر                          ...

 


بزم ادب

                شاعر ہند اور شاعرہ پاک 

       دونوں اپنے ملکوں کے حالات کے ترجمان


غلام نبی کشافی سرینگر 


                                ___________________


        ایک دانشور کا قول ہے ۔


" بہادر مارے جاتے ہیں ، عقلمند پاگل ہو جاتے ہیں ، فکر مند ذہنی مریض بن جاتے ہیں ، جبکہ دنیا خوشحال اور مطمئن بیوقوفوں سے بھری رہتی ہے "


   ایک اور مفکر کا کہنا ہے ۔


" جہالت بڑی نعمت ہے ، شعور آپ کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے ، اور یہ وہ تکلیف ہے جو عوام کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے ، جس تکلیف میں آپ اکیلے ہوتے ہیں ۔

شعور دینا بغاوت نہیں ، نظریہ سمجھانا اُکسانا نہیں، حقائق بتانا جرم نہیں ، حق کا راستہ دکھانا سازش نہیں، خوف ختم کرنا غداری نہیں "


          ہمارے یہاں ہندوستان میں راحت اندوری (1950ء-2020ء) ایک انقلابی فکر و نظر کے حامل شاعر تھے ۔ اگرچہ ان کے کلام و گفتار میں طنز و مزاح بھی بہت خوب ہوتا تھا ، اور ان کا شعر کہنے کا لب و لہجہ بھی دوسروں سے الگ اور منفرد ہوتا تھا ۔ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے سلگتے ہوئے مسائل کو لیکر ان کا دل اور دماغ ہر وقت بیچین رہتے تھے ، جس کا اثر ان کی شاعری میں نمایاں طور پر نظر آتا تھا ۔

  ان کی ایک مشہور غزل کے چند اشعار اس طرح ہیں ؛


     لگے گی  آگ  تو  آئیں گے  گھر  کئی  زد میں

     یہاں   پہ   صرف   ہمارا    مکان   تھوڑی ہے


     ہمارے  منہ  سے  جو  نکلے  وہی صداقت ہے

     ہمارے  منہ   میں  تمہاری   زبان  تھوڑی  ہے


     سبھی کا  خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

     کسی  کے  باپ  کا   ہندوستان   تھوڑی   ہے​


       ان کی ایک اور غزل کا ایک مشہور شعر ہے ؛


     لفظ  گونگے  ہو گئے ، تحریر اندھی  ہو چکی

     جتنے مخبر تھے وہ اخباروں کے مالک ہو گئے


    اسی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو زبان کی معروف اور نامور شاعرہ زہرا نگاہ کا اصل نام فاطمہ زہرا اور قلمی نام زہرا نگاہ ہے، ان کی ولادت 14 مئی 1935 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر حیدر آباد دکن میں ہوئی ، لیکن  تقسیم ہند کے بعد ان کے والد قمر مقصود مستقل طور پر کراچی چلے گئے تھے۔ اور اس وقت زہرا نگاہ کی عمر 12 سال کی تھی ، اس لئے وہ اپنے لڑکپن سے ہی پاکستان میں پلی بڑھی اور آج 89 سال کی پختہ عمر میں اور فکر انگیز شعر و شاعری کی وجہ سے اپنا ایک بڑا مقام رکھتی ہیں ۔

   ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگرچہ ان کی شعر و شاعری پر فیض احمد فیض کا اثر نمایا طور پر نظر آتا ہے ، لیکن انہوں نے باقاعدہ فیض کی تقلید نہیں کی ہے ۔ اس لئے ان کے کلام میں ایک الگ انفرادیت بھی پائی جاتی ہے ۔

 زہرا نگاہ کی ایک مشہور آزاد اسلوب میں لکھی گئی نظم ان کے پاکستان کی موجودہ ابتر صورت حال پر بالکل صادق نظر آتی ہے ؛


سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا 


درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے 

ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں 


تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر 

کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے 


سنا ہےگھونسلے سےکوئی بچہ گر پڑے تو ساراجنگل جاگ جاتا ہے 

سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں 


بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے 

تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں 


کبھی طوفان آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو 

کسی لکڑی کے تختے پر 

گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں 


سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 

خداوندا ! جلیل و معتبر ! دانا و بینا منصف و اکبر ! 

مرے اس ملک میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر 


                                    _____________________

کوئی تبصرے نہیں

Hi