١٨١٥ء میں میکالے نے ہندستان میں تعلیم کا خاکہ کھینچا اور ایک نئی تبدیلی رونما ہوئ۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ مشرقی علوم کو مشرقی زبان میں سی...
١٨١٥ء میں میکالے نے ہندستان میں تعلیم کا خاکہ کھینچا اور ایک نئی تبدیلی رونما ہوئ۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ مشرقی علوم کو مشرقی زبان میں سیکھنا چاہیے، اور دوسرے گروہ نے کہا کہ نہیں، انگریزی میں۔ میکالے نے دوسرے گروہ کا ساتھ دیا۔ اور اپنی وہ مشہور رپورٹ لکھی، جس میں اس نے لکھا کہ ہندستان کو ایک نئی زبان سیکھنا چاہیے اور نئے علوم و فنون کو اس کے ذریعہ سیکھ کر ترقی کے راستہ میں بڑھنا چاہیے۔
لیکن یہاں میکالے سے ایک زبردست غلطی ہو گئی۔ ملکی زبانوں کو اس نے نہایت حقارت سے دیکھا اور انہیں کسی قابل نہیں سمجھا، جس کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔
مگر ملکی زبانون کی طرف توجہ نہ دینے کے مسئلہ میں انہوں نے جو غفلت برتی، اس کے پیچھے ان کا "سیاسی پس پردہ" تھا۔ جو دروازہ ان کے لیے کھل گیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اسے محفوظ کر لیا جاۓ۔ اس لیے کوشش کی کہ تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہو، جو ملک کی مادری، قومی، روایتی، معاشرتی اور تاریخی نہیں، بلکہ ایک سمندر پار کی زبان کو وسیلہ بنایا جاۓ۔ یہ فیصلہ مصنوعی تھا۔ کوئ قوم، کسی اجنبی زبان کو اپنی دماغی اور فکری زندگی کا ایک منٹ کے لیے بھی ذریعہ نہیں بنا سکتی۔ اگر وہ بناۓ گی بھی، تو کوئ صحیح چیز وہ نہیں بنا سکتی۔ بلکہ اس کی ایک مسخ شدہ صورت البتہ پیدا ہو جاۓ گی۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں ایک سو تیس برس کی تعلیم کے بعد بھی وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکے، جو دوسرے ممالک میں بہت تھوڑے عرصے میں پیدا ہو گئے۔
"مولانا ابوالکلام آزادؒ"
کوئی تبصرے نہیں