Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

کہتے ہیں کہ روم میں رہیو تو ایسے رہیو جیسے رومی رہوے ہیں۔

  کہتے ہیں کہ روم میں رہیو تو ایسے رہیو جیسے رومی رہوے ہیں۔  جب بھی کراچی آتا ہوں تو پہلے اتوار کی صبح دوست جامی بھائی کا فون آتا ہے اور ریگ...

 



کہتے ہیں کہ روم میں رہیو تو ایسے رہیو جیسے رومی رہوے ہیں۔ 


جب بھی کراچی آتا ہوں تو پہلے اتوار کی صبح دوست جامی بھائی کا فون آتا ہے اور ریگل چوک پر کتابوں کے بازار کی سیر کی دعوت ہوتی ہے۔ اس بار کچھ گھریلو مصروفیات رہیں اور جامی بھائی سے معذرت کرنا پڑی۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے۔ میری خوش قسمتی یہ ہے کہ میرے گھر سے صرف سڑک کے اس پار پرانی کتابوں کاایک مستقل بازار ہے۔۔ اس بار بھی ایک گرم شام کو ہمت کرکے  پل عبور کیا اور کتابوں کے بازار کی زیارت کر ہی ڈالی۔ یہ کتب فروش بڑے کائیاں ہوگئے ہیں۔ انہیں جب اندازہ ہوجاتا ہے کہ خریدار کسی کتاب کو لازما خریدے گا تو پھر وہ  قیمت بڑی مشکل سے کم کرتے ہیں۔ 


اس بار بھی یہی ہوا ۔ ایک بڑی خوبصورت اور قدرے ضخیم کتاب دل کو بھاگئی۔ یہ “آواز خزانہ “ تھی۔ یہ لطف اللہ خان مرحوم کی آڈیو لائبریری سے منتخب انٹرویو کی کتابی شکل ہے جسے  عزیز ی راشد اشرف نے بڑی محنت سے نقل کیا ہے جس میں ان کے ساتھ محمد حنیف بھی شامل ہیں۔ اور یہ خزانہ انہیں محترم ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ نے مہیا کیا ہے۔ 


مجھے لکھنے کا شوق تو ہے لیکن بات سمیٹنے اور اختصار کا گُر نہیں آتا۔ اب یہی دیکھئے کہ میں بات کچھ اور کرنا چاہ رہا رھا لیکن تمہید اس قدر طویل ہوگئی۔ ہوا دراصل یہ کہ “آواز خزانہ” میں ماضی کے مشہور اداکار درپن کے انٹرویو میں ان کی ایک فلم “ لاکھوں فسانے” کا ذکر تھا۔ میں نے نہ یہ فلم دیکھی، نہ کبھی اس کا نام دیکھا یا سنا یا کہیں پڑھا۔ مجھے یونہی تجسٌس ہوا کہ کیا یہ فلم یو ٹیوب پر ہوگی ؟ ظاہر ہے ہم پاکستانی ان معاملات میں اتنے مستعد کہاں؟ یہ تو بالی ووڈ اور ہالی ووڈ ہیں جہاں آج سے سو سال قبل کی فلمیں بھی انتہائی محفوظ حالت میں ہیں۔ ہماری چار سال پرانی فلم اور ڈرامہ دیکھنے بیٹھیں تو آنکھیں چکرا جاتی ہیں کہ پرنٹ اس قدر دھندلے اور بے کار ہوتے ہیں کہ اچھے بھلے فلم یا ڈرامہ دیکھنے کو طبیعت راضی نہیں  ہوتی۔ ادھر ہندوستانی فلمیں ہیں کہ ستٌر سال پرانی فلم بھی بالکل نئی  نکور فلم کی طرح نظر آتی ہے۔ 


فلم “ لاکھوں فسانے” تو دیکھنے نہیں ملی البتہ اس فلم کے متعلق معلومات مل گئیں اور میں حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس فلم میں ایک نہیں کئی باتیں تھیں جو حیران کن تھیں۔ ایسی باتیں جن کا مجھے ہرگز علم نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ میرے احباب میں بھی شاید ہی کسی کو اس فلم کے بارے میں معلومات ہوں گی۔لاکھوں فسانے کیسی فلم تھی، اس بارے میں تو کچھ علم نہیں لیکن اس کی چند ایک خصوصیات دلچسپ ہیں۔ 


یہ فلم ۱۹۶۱ میں بنی تھی۔اس کی کہانی مشہور ترقی پسند ادیب، طنز نگار، کالم نگار اور افسانہ نویس ابراہیم جلیس نے لکھی تھی۔ فلم کے چار نغمہ نگار تھے جن میں مشہور نقاد، ادیب اور شاعر شان الحق حقی بھی شامل تھے۔ اس فلم کے اداکاروں میں درپن، رخشی، لہری کے علاوہ “سوزی ڈینئیل” اور “ وملا کماری” بھی شامل  تھے۔ ان دو ناموں کے بارے میں ہمارے بزرگ دوست اشفاق احمد اور راجو جمیل شاید کچھ جانتے ہوں۔ 


اس فلم میں مشہور گلوکار احمد رشدی نے بطور مہمان اداکار کام کیا تھا۔مزے کی بات فلم میں رشدی کا کوئی گیت نہیں ہے۔ اس کے موسیقار دیبو تھے اور گلوکاروں ایس بی جان، زبیدہ خانم ، مختار بیگم (آغا حشر کی بیگم) طیبہ بیگم وغیرہ شامل تھے لیکن ایک حیران کن نام مشہور بھارتی گلوکار سی ایچ آتما کا بھی تھا۔ 


یہ تفصیلات پڑھ کر ذہن میں کئی باتیں یاد آتی رہیں۔ ایک تو یہ کہ فلم ایک سنجیدہ اور کارآمد میڈیم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مشہور شاعر وادیب اور فنکار اس شعبے سے وابستہ تھے۔ ابراہیم جلیس کا یہاں ذکر آیا۔ انہوں نے ایک اور مشہور فلم کی کہانی بھی لکھی تھی لیکن اس فلم کا نام میرے ذہن سے محو ہوگیا ہے۔ ابراہیم جلیس کے صاحبزادے، میرے دوست شہریار جلیس شاید ہماری رہنمائی کرسکیں۔ 


میری محدود یادداشت میں جن اور ادیبوں کے نام آتے ہیں ان میں سعادت حسن منٹو کی کہانی جھمکے پر مبنی فلم “بدنام” ، ممتاز مفتی کی کہانی پر بنی فلم “ نیلا پربت” جس کے فلمساز و ہدایتکار احمد بشیر ( بشری انصاری ، اسماء عباس اور نیلم احمد بشیر کے والد) تھے۔ فلم کے گیت کاروں میں ابن انشاء بھی شامل تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانی ، اک چادر میلی سی، پر مبنی فلم “ مٹھی بھر چاول” اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کے افسانے “ پرمیشر سنگھ “ پر مبنی فلم  ، کرتار سنگھ ، یہ چند فلمیں ہیں جو اس وقت یاد آرہی ہیں۔ ویسے کرتار سنگھ کے بارے میں مجھے درست علم نہیں کہ یہ واقعی احمد ندیم قاسمی کی کہانی ہے ؟ 


فیض صاحب نے مشرقی پاکستان میں “جاگو ہوا سویرا” بنائی ۔ اس کے علاوہ ایک اور فلم “ دور ہےسکھ کا گاؤں” سے بھی فیض صاحب کا نام منسلک ہے۔ فلم “قیدی” میں فیض صاحب کی نظم “ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ” کے علاوہ فلم “ فرنگی” میں مہدی حسن کی گائی غزل “ گلوں میں رنگ بھرے” بھی مشہور ہوئے۔ اسی فلم میں فیض کی نظم “ ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے” بھی فلمائی گئی تھی۔ 


فلم “آگ کا دریا” میں جوش صاحب کے گیتوں نے دھوم مچائی تھی اور “ہوا سے موتی برس رہے ہیں” “ من جا من جا بالم من جا” اور “ رات آئی تو ساقی نے بڑی دھوم مچادی “ جیسے نغموں کو اس وقت کی حکومت نے ریڈیو پر “بین” کردیا تھا۔ منیر نیازی کی غزل “ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہے دوستو” جسے فلم “ شہید” میں گایا گیا، بھی انہی دنوں کی یاد گار ہے۔ سرور بارہ بنکوی نے مشرقی پاکستان میں “ آخری اسٹیشن” بنائی۔ لیکن اس سے بہت پہلے فضل احمد کریم فضلی “چراغ جلتا رہا “ بنا چکے تھے جس کی بہت سی خصوصیات “لاکھوں فسانے” سے ملتی جلتی ہیں۔ 


چراغ جلتا رہا میں پہلی بار چھ نئے فنکاروں کو متعارف کیا گیا جن میں سے محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی ایک عرصے تک فلمی دنیا پر چھائے رہے۔ اس فلم کی کہانی اور ہدایات بھی فضلی صاحب کی تھیں جو کہ ایک مستند ادیب اور شاعر تھے۔ اس فلم میں مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود نے بھی گلوکاری کی تھی۔ طلعت محمود نے غالب کی غزل “ کچھ ہوا حاصل نہ کوشش بیکار سے” کے علاوہ فضلی صاحب کی غزل “ مشکل نکلا دل کا سنبھلنا” بھی گائی تھی۔ اس دور میں فلموں میں شعر وادب کا کیا معیار تھا اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس میں جگر کی غزل “ آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی” ایم کلیم نے گائی تھی۔ میر تقی میر کی غزل پتہ پتہ بوٹا بوٹا بھی فلم میں شامل تھے۔ امیر خسرو کا“ کاہے کو بیاہی بدیس “ کے علاوہ ماہر القادری کی مشہور نعت “ سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی” بھی اس فلم میں شام تھے۔ 


طلعت محمود سے یاد آیا کہ سی ایچ آتما کا ذکر میں کرچکا ہوں، ۱۹۶۰ کی فلم “ہمسفر” میں جو مشرقی پاکستان میں فلمائی گئی تھی۔ اس میں مشہور بھارتی گلوکار اور موسیقار ہیمنت کمار کا گیت “ رات سہانی ہے، کھویا کھویا چاند ہے، میری قسم ہے تجھ کو ، اک بار مسکرادے” بہت مقبول ہوا تھا۔ ایک اور بھارتی گلوکارہ سندھیا مکھرجی نے بھی اس فلم میں گانے گائے تھے۔ 


بھارت اور پاکستان کے فنکاروں کا ایک دوسرے کا ہاں کام کرنا شروع دن سے چلا آرہا تھا۔ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد اور ابتدائی زمانے کی ایک اور فلم میں ناصر خان ہیرو تھے جو دلیپ کمار کے بھائی تھے۔ ایک اور اداکارہ شیلا رامانی نے فلم “انوکھی” میں کام کیا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ماضی کے بھارتی فلموں کے اداکار رحمان اور آغا نے بھی پاکستانی فلموں میں کردار ادا کئے تھے لیکن ان کی تفصیلات میرے پاس نہیں ہیں۔ 


ہمارے ہاں سے بھی درپن نے چار ہندوستانی فلموں میں کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ علاؤالدین ، زینت بیگم اور سنتوش بھی ہندی فلموں میں جلوہ گر ہوچکے تھے۔ محمد علی اور زیبا کے علاوہ زیبا بختیار بھی ہندوستانی فلم میں کام کرچکے ہیں۔ کرکٹر محسن خان جنہوں نے بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی کی تھی ، بھی چند ہندی فلموں میں کام کرچکے ہیں۔  


ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں فنکاروں نے ایک دوسرے کے ملک میں کام کیا ہے۔  فواد خان، علی ظفر، سجل علی، ماہرہ خان، صبا قمر ، مدیحہ امام، مونا لزا اور دوسرے کئی فنکار ہندوستانی فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھا کے ہیں۔ راحت فتح علی، علی ظفر، عاطف اسلم، نازیہ حسن، حسن جہانگیر ، سجاد علی وغیرہ کے نغمے بھارت میں بے حد مقبول رہے ہیں۔ 


ادھر ششی کپور جیسے فنکار نے “ جناح” میں اداکاری کی تو نصیر الدین شاہ ( خدا کے لئے) اوم پوری ( ایکٹر ان لاء) کرن کھیر ( خاموش پانی) اور نندتا داس ( رامچند پاکستانی) اور دوسرے کئی بھارتی فنکار بھی ہماری فلموں میں کام کرچکے ہیں۔ 


ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ فلم جیسا موثر اور ہردلعزیز شعبہ ابلاغ ہمارے ہاں حکومتوں ، اداروں اور عوام کی بے حسی کا شکار ہوچکا ہے۔ فلمی صنعت جس میں فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، ماہرالقادری، بہزاد لکھنوی، منیر نیازی، منٹو، سیف الدین سیف جیسے نام بھی جگمگاتے تھے پھر وہ وقت آیا کہ غیر تعلیمیافتہ ، جرائم پیشہ اور نو دولتیوں کا اس پر غلبہ ہوگیا۔ اب بہتری کی کچھ صورت ہورہی ہے لیکن یہ سفر بہت آہستگی سے جاری ہے۔ 


“ آواز خزانہ” میں “ لاکھوں فسانے” کے بارے میں پڑھا تو یہ ساری باتیں یاد آئیں۔ اچھی بات چاہے ریاض میں ہی یاد آئے تو دوسروں کو بھی سنانی چاہئیے۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟


 

کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ