مردان میں پہلے پشتو ادبی جرگہ کے نمایاں شاعر ڈاکٹر امین الحق __ایک تعارف تحریر ۔عظمت ہما یہ 1952 کے زمانے کی بات ہے مردان کے مشہور بازا...
مردان میں پہلے پشتو ادبی جرگہ کے نمایاں شاعر
ڈاکٹر امین الحق __ایک تعارف
تحریر ۔عظمت ہما
یہ 1952 کے زمانے کی بات ہے مردان کے مشہور بازار شہیداں میں دندان سازی کی ایک دکان کھولی گئی ۔اس زمانے میں دندان سازی کی اور دکانیں بھی ہوتی ہوں گی لیکن اس دکان کو ایک خاص اہمیت اس لیے حاصل تھی کہ اس دکان میں بیٹھ کر اس وقت کے پشتو شعراء اور ادباء نے مردان میں پہلی بار پشتو ادبی جرگہ کی بنیاد ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔جی ہاں میں ڈاکٹر امین الحق کی دکان کی بات کر رہا ہوں جس میں پشتو ادبی جرگے کے کئی تنقیدی اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 50 کی دہائی میں ڈاکٹر امین الحق مردان شہر میں مقیم شعراء میں نمایاں شاعر تھے ۔ڈاکٹر امین الحق ھشت نگر کے گاؤں جالہ بیلہ میں دسمبر 1930 میں عبدالحق کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم اگرہ میں حاصل کی اٹھویں جماعت میاں گجر مڈل سکول سے پاس کیا اور میٹرک خالصہ سکول پشاور سے کیا ۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا ۔بارھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دندان سازی میں سند لاہور پنجاب سے حاصل کی ۔ڈاکٹر صاحب کے بقول ان کا گھرانہ علمی اور تقوی دار گھرانہ تھا ۔اس تقوی دار گھرانے کے علمی ماحول میں ڈاکٹر صاحب کی پرورش ہوئی ۔دندان سازی میں سند لینے کے بعد جب وہ مردان تشریف لے ائے تو ان کے بقول ان کی ملاقات 1951 میں میاں خیر الحق گوہر سے ہوئی ۔میاں خیر الحق گوہر اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کے ممبر تھے ۔ڈاکٹر امین الحق بھی میاں صاحب کی معیت میں انجمن ترقی اردو کے تنقیدی اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے ۔اس انجمن کے تحت اردو اور پشتو کے مشاعرے ایک ساتھ ہوتے تھے چنانچہ ڈاکٹر صاحب پشتو مشاعروں میں حصہ لیتے تھے ۔اس زمانے میں پشاور میں موجود اولسی ادبی جرگے کے اجلاسوں میں بھی اپنی حاضری یقینی بناتے تھے ۔پشتو ادب سے دلچسپی کے بنا پر بازار شہیداں میں ان کی دکان مردان کے پشتون شعرا کے لیے باقاعدہ ایک دبستان کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ادبی مباحث اور پشتو ادبی جرگہ کے تحت تنقیدی مجالس اس دکان کی زینت بنی رہی ۔بزرگ اور نئی نسل کے نمائندہ شعراء ان مجالس میں باقاعدگی سے أتے رہے ۔اگرچہ ڈاکٹر صاحب کی یہ دکان ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھا لیکن اس دکان میں باقاعدہ تنقیدی اجلاسوں میں مردان کے شعرا جدید پشتو ادب کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے ۔جب 1972 کے بعد پشتو ادبی جرگہ غیر فعال رہا تو ڈاکٹر امین اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے ان ہی کی دکان میں 1976 میں پشتو ادبی دوستان کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔جس کا صدر اتفاق راۓ سے ڈاکٹر امین الحق کو ہی مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی فراخ دلی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی دکان کے دروازے تنقیدی اجلاسوں کے انعقاد کے لیے کھول رکھے تھے ۔بقول اجمل خٹک امین الحق امین تو خود ایک دندان ساز ہے اور مردان کے بازار میں ان کی دندان سازی کی دکان ہے لیکن اس کی پشتو ادب اور مردان کے لوگوں سے اتنی محبت ہے اور وہ ایسا کشادہ دل اور پشتون فطرت رکھنے والا انسان ہے کہ اس کی دکان میں ہر وقت مریضوں سے زیادہ ادباء شعراء پشتو زبان کے دلدادہ یا ان کے فکر و نظر کے فلسفی دوست بیٹھے ہوتے ہیں اور جو کوئی مردان کے شعر و ادب کا ذکر کرتا ہے تو ڈاکٹر امین کی دکان فراموش نہیں کر سکتا اس بات کی تصدیق پیرگوہر شاعر امن کے ان جملوں سے بھی ہوتی ہے " اگر ڈاکٹر کی دکان کے سامنے ایک بہت خوبصورت اور چمکیلی گاڑی کا مالک گاڑی سے اتر کر دکان کی طرف اتا اور وہ اگر شاعر ادیب دانشور نہ ہوتا تو ڈاکٹر اسے بالکل توجہ نہیں دیتا لیکن اگر کوئی غریب شاعر یا فنکار ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے أتا تو وہ اسے اس طرح اپنے گلے لگاتا جیسے وہ اس کا ہی منتظر ہو اور اس کی ملاقات سے اسے تسکین مل چکی ہو "۔یہ وہ ترقی پسندانہ احساس تھا جو ڈاکٹر صاحب کے دل کے سمندر میں ٹھاٹھیں مارتا اور یہی سوچ اور احساس نے الفاظ کا جامہ پہن کر ان کی ترقی پسند نظموں کی شکل اختیار کی ہے ۔ترقی پسندانہ احساس اور سوچ کے ساتھ ساتھ ان کی نظموں میں فلسفیانہ فکر کی عکاسی بھی ہوئی ہے اور یوں انہوں نے اپنی شاعری میں ترقی پسندی اور فلسفیانہ فکر کو اپس میں مدغم کیا ہے لہذا انہیں ترقی پسند فلسفی کہنا بجا ہے ۔ویسے تو پشتو میں لیونے فلسفی کی اصطلاح مشہور ہے لیکن اگر میں انہیں ترقی پسند دانا فلسفی کہوں تو غلط نہیں ہوگا ۔وہ اپنے بلند قد وقامت مضبوط ڈیل ڈول چوڑی پیشانی موٹے گالوں اور بکھرے ہوئے بالوں کی وجہ سے فلسفی ہی دکھائی دیتے تھے ۔ان کا یہی حلیہ میرے ذہن کی تختی پر اج بھی نقش ہے یوں اگر دیکھا جائے تو ان کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ڈاکٹر امین الحق نظم کے شاعر تھے اگرچہ ان کے شعری مجموعے گورے وریزے میں غزلیں اور قطعات بھی موجود ہیں لیکن نظم ان کی پسندیدہ صنف تھی ۔مردان کے اس درد مند دل رکھنے والے ڈاکٹر اور شاعر نے مردان کے عوام کی حتی الوسع خدمت کی ہے اور مردان کے ادب کے منظر نامہ کو بھی روشن رکھا ہے ۔اس صلح کل اور حلیم الطبع شخصیت نےاپنی زندگی کی ۵۸ بہاریں (۱۹۳۰۔ ۱۹۸۸) دیکھیں تھیں۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے۔أمین۔
کوئی تبصرے نہیں
Hi