اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام علامہ محمد اقبال کے مجموعہ کلام ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر ’’صد سالہ ج...
اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام علامہ محمد اقبال کے مجموعہ کلام ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر ’’صد سالہ جشنِ بانگِ درا‘‘ کی تقریب 23 اپریل 2024ء کو منعقد ہُوئی۔ یہ تقریب روایتی ادبی نشست یا سیمینار سے یوں مختلف تھی کہ اِس میں بیک وقت سکول کے ننھے بچوں کے ٹیبلو، نوجوانوں کی گائیکی، سنجیدہ اہلِ قلم کی مترنم و تحت اللفظ پڑھت، اور کہنہ مشق ناقدین و محققین کے خطبات شامل تھے۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہُوا کہ کلامِ اقبال خصوصاً بانگِ درا نے کس طرح ہر عمر اور مرتبے کے افراد کو متاثر کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر صدرِ مجلس تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین اکادمی ادبیات نے سپاس نامہ جبکہ اختر عثمان نےکلید ی خطبہ پیش کیا۔ سیّد حسن زیدی نے نظم "حضورِ رسالت مآب میں" ترنم کے ساتھ جبکہ شکیل جاذب نے نظم "خضرِ راہ" تحت اللفظ میں پڑھی۔ عمار علی یاسرنے موسیقی کے ساتھ غزل "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں" اور "شکوہ، جوابِ شکوہ" سے بند پیش کیے۔ گلوبل سسٹم آف انٹیگریٹڈسٹڈیز اسلام آباد کے بچوں نے بانگِ درا کی معروف نظم "بچے کی دعا" کو مترنم ٹیبلو کی صورت میں پیش کیا۔ نظامت ڈاکٹر عابد سیال نے کی۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ بانگ درا اقبال کا پہلا مجموعہ کلام نہیں، اور نہ ہی آخری ہے۔ ستمبر1924ء میں اِس کی اشاعت سے قبل اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق وغیرہ کی اشاعت ہو چکی تھی۔ علامہ اقبال نے اس مجموعے کا انتخاب خود کیا تھا اور بوقتِ انتخاب بڑی بے دردی سے اپنے ہی بہت سے کلام کو رد کر تے ہُوئے شامل اشاعت نہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بانگ درا کی نظمیں فنی اعتبار سے لطافتوں، تنوع اورحسن وجمال کی حامل ہیں۔ فکری سطح پر ان کی شاعری کے تین مراحل ہیں: وطنیت، اسلامیت اور آفاقیت۔ انہوں نے بانگِ درا کی پہلی نظم "ہمالہ" کے فکری و فنی محاسن پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ فکری سطح پر بانگِ درا کے ابتدائی کلام کو اقبال کا نمائندہ کلام نہیں کہا جا سکتا۔ اِس میں ہندو مائتھالوجی اور انگریزی رومانوی شعرا کے اثرات تو ملتے ہیں مگر رومی و بیدل کا کہیں حوالہ نہیں ملتا جو بعد میں فکرِ اقبال کے حاوی حوالے بن گئے۔
اکادمی ادبیات کی صدر نشین ڈاکٹر نجیبہ عارف نے تمام مہمانانِ گرامی اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بانگ درا کئی طرح سے علامہ اقبال کی تمام کتب میں خاص انفراد کی حامل ہے۔ یہ وہ واحد کتاب ہے جس میں اقبال نے بچوں کے لیے کی گئی شاعری اور ظریفانہ شاعری شامل کی ہے جس میں گہرا سماجی طنز بھی ملتا ہے۔ اگرچہ یہ اقبال کا پہلا اُردو مجموعہ ہے مگر اِس کے تیسرے حصّے میں اقبال کے بعد میں ظاہر ہونے والے فکری نظام کی بنیادیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ بانگ درا کے پہلے حصے میں وطنیت کی جھلک ہے، دوسرا حصّہ قیام یورپ کے حوالے سے ہے جبکہ تیسرے حصّے میں وہ فکری و فنی عناصر شامل ہیں جو اُن کےبعد کے فارسی اور اردو کلام میں کھل کر سامنے آئے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان نے بانگِ درا کے صد سالہ جشن کی تقریبات کا آغاز کر دیا ہے۔ اب دیگر سرکاری و نجی ادارے اِس سلسلے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ چونکہ بانگِ درا ستمبر 1924ء میں چھپی تھی، لہٰذا یہ سلسلہ کم از کم ستمبر 2024ء تک جاری رہنا چاہیے۔
اختر عثمان نے "بانگِ درا کے فکری و فنی اثرات" کے موضوع پر اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ اقبال نے بانگ درا میں جس خطابیہ لہجے میں نظمیں اور غزلیں لکھیں اقبال کے علاوہ کوئی اور لکھ ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رومی و بیدل کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اقبال کی فکری و فنی تشکیل میں معاونت کی۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کے بعد اردو کا کوئی نمایاں شاعر اُن کے اثرات سے بچ نہیں پایا۔ بانگ درا سے استفادے کی متعدد مثالیں انہوں نے پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ جدید نظم نے کیسے بانگِ درا سے اثر قبول کیا۔ فیض احمد فیض، ن م راشد، میرا جی، اخترحسین جعفری، فراق اور خورشید رضوی کے کلام پر اقبال کے اثرات کو تفصیلاً بیان کیا گیا۔ آخر میں اختر عثمان نے اقبال کی معروف فارسی نظم "تنہائی" سُنائی اور خراجِ عقیدت کے طور پر اِس نظم کا منظوم اُردو ترجمہ پیش کیا۔
اِس تقریب میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عمر فاروق نے صدر نشین، اکادمی ادبیات کوعلامہ اقبال کی آخری کتاب "ارمغان حجاز" کی اشاعتِ اوّل کا نسخہ اکادمی ادبیات کے لیے تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ اِس موقع پر اکادمی کی طرف سے علامہ اقبال کی کتب کے مختلف ایڈیشنز کی نمائش بھی کی گئی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے گلوبل سسٹم آف انٹیگریٹڈ سٹڈیز کی پرنسپل اور طالبعلموں کو "ادبیات اطفال" کے شمارے بھی پیش کیے۔ تقریب میں اہلِ قلم نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اِس تقریب کو اپنی طرز کی منفرد و کامیاب تقریب قراد دیا۔
کوئی تبصرے نہیں
Hi