بنسورا راجھستان کے میرے پیارے دوست بڑے بھائی ڈاکٹر سعید خان گل (سعید روشن ) کو اردو ناول کا پشتو ترجمہ بختورہ کتاب کی دو عدد نسخے مل گئے ہ...
بنسورا راجھستان کے میرے پیارے دوست بڑے بھائی ڈاکٹر سعید خان گل (سعید روشن ) کو اردو ناول کا پشتو ترجمہ بختورہ کتاب کی دو عدد نسخے مل گئے ہیں۔
شکر گزار ہوں میٹر لنک لکھنو کے پبلشر اور ادبی شخصیت جناب قاضی ذکریا صاحب جنہوں نے میرے دوست کو میری ترجمہ شدہ کتابیں بذریعہ ڈاک بھیج دی ہیں ا۔ ڈاکٹر خان نے وصولی کی رسید دے دی ہے
بھاگ بھری، سات صدی کا قصہ ،تاج محل اور دریائے ٹیمز
کہانی کے تارو پود اور کرداری تمہید ۔۔یہ کہانی آج سے سات سو سال بعد کی ہے۔ ناول نگار ان عالمی شہرت یافتہ ماہرین اور ہنر مندوں کی اس محیر العقول کاوش کا ذکر کرتا ہے۔جنھوں نے محبت کی آفاقی علامت تاج محل کو پاک بھارت ایٹمی جنگ میں دونوں ممالک کی تباہی کے بعد مزید تابکاری سے بچا کر مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دریائے ٹیمز کے کنارے ایستادہ کردیا ، جو کبھی جمناکے کنارے اپنی خوبصورتی سے چاند کو شرمایا کرتا تھا۔ ناول کے مرکزی کردار بھاگ بھری اور ساون ہیں ۔ ساون جو بعد میں خالد کے نام سے اس جنگ کا مرکزی کردار ہے۔۔
،، دنیا کا بڑا ادب سیاست کے جبر سے برآمد ہوگا،،
ہم اب اس میں صرف ماضی کے تذکرے تہذیبوں کے نوحے اور نسل در نسل تعصبات کی پیوندکاری نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سفاک حقیقت نگاری کی طرف اشارہ ہے۔
بھاگ بھری کے دیباچے کی اس تحریر میں مشرف عالم ذوقی نے عالمی شہرت کے حامل تین ناول نگاروں کا حوالہ دیا۔۔ خالد حسینی کی ، دی کائٹ رنر،، ڈومیٹک لیپرے کی از نیویارک برننگ اور محسن حامد کی ،دی ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے سماج میں حقیقت نگاری کی صورتحال واضع کی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ حقیقت نگاری کی اس سفاک عکاسی کے بغیر انسانیت کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔۔
ہسیوڈ نے کہا تھا ،ہنگامے کی ابتدا ہوجاتی ہے عدل کو جب
گھسیٹ کر باہر نکال جاتا ہے جب رشوت خور اس کا گلا گھونٹنے ہیں ، روایت سے غلط نتائج برآمد کرتے ہیں
محبت کی علامت، تاج محل ، دریائے ٹیمز کے کنارے اتنے ہی باوقار طریقے سے ایستادہ تھا جیسے کبھی دریائے جمنا کے کنارے براجمان اپنی خوبصورتی سے چاندنی کو شرمایا کرتا تھا، لیکن یہ یونہی نہیں ہوگیا تھا۔۔ یہ سائنس کا معجزہ تھا اور یہ امن اور انسانیت کی طاقت کا مظاہرہ تھا، ورنہ انسانی وحشت ہزاروں شہکار راکھ کر چکی ہے۔
مرکزی کرداروں میں بھاگ بھری نچلی ذات کی ایک عورت کو جبری مشقت پر مجبور ہے ۔ ساون اس کا بیٹا ہے جو جبری مشقت لینے والوں کی دین ہے، بھاگ بھری نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم نہیں رکھا تھا کہ وڈیرے کے بھائی نے اس کلی کو نوچ لیا۔ اس کی ماں اور باپ فرہاد لے کرر گئے تو وڈیرے نے پہلے انھیں ڈرایا کہ تم کیسے الزام لگاتی ہو۔ اور پھر ایک ہاری کے پلے باندھ کر آنے والی روح کو اس کے نام سے منسوب کردیا ہے۔۔ اور پھر یہی سے بھاگ بھری کی آزمائش کا ایک دور شروع ہوا۔۔۔
ساون کی پیدائش پر سوائے بھاگ بھری کے کوئی خوش نہ تھا۔
اس لیے نہیں کہ یہ اس کی رضامندی سے ہو رہا تھا
اس لیے کہ وہ ماں تھی اور اس کا دنیا میں اس کے علاؤہ ہوں تھا
جبری مشقت کے اسی زمانے سے گزرتے ہوئے ساون جوان ہوا اس کی فطرت میں بغاوت اور شجاعت دونوں موجود تھے
حویلی میں اسے جانوروں اور ماں کے علاؤہ کسی سے سروکار نہیں تھا۔۔ وہ کھڑکیوں سنتا اور ماں کی نصیحتوں پر عمل کی کوشش کرتا جیتا رہا اور پھر ایک دن وہ انتہا پسند مسلمانوں کے ہاتھ آگیا جنھوں نے اس کا نام خالد رکھا اور اسے جہادی مدرسوں اور کیمپوں میں پہنچا دیا ۔ ماں کی غریبی اور باپ کی شفقت سےمحروم ساون کے لیے یہاں ایک اور ہی جہاں تھا
جہاں کے کردار اپنی الگ ہی نفسیات کے ساتھ خالد کی بہادری اور ذہانت کو نکھارتے رہے۔ اور یہ نکھار ایک بڑی تخریب کے راستوں کو آسان کرتا رہا
وڈیرہ حیدر شاہ جبری سماج کی علامت ہے اور پتہ نہیں کتنے ساون اور بھاگ بھری جیسی روحیں یہاں ساون اور خالد دونوں کرداروں کی ماں ہونے کی سزا سہہ رہی ہیں
ناول بھاگ بھری ایک ایزل ہے جس پر کچھ نئے نقشے اور خاکے بنائے گئے ناول نگار نے اس آرٹ میں ٹیکنالوجی کے انسانی بقا اور فنا دونوں کے استعمال کے عکس تراشے ہیں۔۔
تاج محل کا دریائے ٹیمز کے کنارے پہنچ جانا اور انگھیٹھی میں لیبارٹری سے بنی لکڑیاں اور ان کے شعلے۔۔ یہ انسانیت کا امن اور ترقی کا خواب ہے۔ لیکن اس کی تعبیر کے لیے جانے کتنے خوبصورت خوابوں کو راکھ ہونا ہوگ ا
ایک عکس ان ہندو بنجاروں کا بھی ہے جو لاعلمی میں اپنی بچی کا نام بھاگ بھری رکھ دیتے ہیں اور جس کے بھاگ کبھی نہیں جاگتے۔ نحوست اس کے دامن سے ہمیشہ کے لیے لپٹ جاتی ہے ۔۔ سیاست اور ریاست کے لیے ایسے کردار تاریخ کا ایندھن ہیں ۔کسی حد تک آرٹ اور ادب ہی ایسے کرداروں کا مرثیہ خواں ہے۔۔
بھاگ بھری کا باپ وڈیرے حیدرشاہ کی زمینوں پر کام ملنے پر خوش تھا لیکن پھر وہ قرض کے دائرے میں پھنس گیا جہاں اس کی تین نسلیں کھیت رہیں ۔باپ ماں اور بیٹی وڈیرے کے جانوروں اور ان کی عورتوں کی کوکھ ان کے عیش کا بوجھ اٹھانے کے لیے وقف ہو کر رہ گئی
بھاگ بھری چھوٹے سائیں کے نطفے کا شکار ہوئیں تو شکایت پر ماں باپ کو بے بس کردیا گیا۔۔ بھاگ بھری کی شادی باپ کی عمر کے ایک ہاری سے کردی وہ ہاری بھی سب کہانی جانتا تھا
اور بہت جلد احساس کی بیماری اسے بھی لے گئی ۔ یوں بیوگی اور غلامی ماں بیٹے کے حصے میں آئی
ناول کا بنیادی احساس فیوڈل لارڈز ، وار لارڈز نودولتیے ، مقدس جنگوں کے فوبیا کا شکار اور انسانیت کے خلاف بنا ہوا مذہبی مائنڈ سیٹ ہے جس کے ڈانڈے تاریخ میں بڑے مذاہب اور ریاستوں کے کردار میں ملتے ہیں۔ لیکن جس کے نتائج نوع انسان کی کئی نسلوں کو بھگتنے ہوتے ہیں ۔ماضی کے برعکس اب انسان کے ہاتھ میں ترقی کا جن ہے جسے وہ بوتل میں بند نہیں کرنا چاہتا اور گزرتے ہر لمحے کے ساتھ اسے بند کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔ یہی وہ سفاک حقیقت ہے جو اس ناول کے کرداروں اور انجام کی شکل میں ہمارے سامنے لائی گئی ہے ۔
بھاگ بھری برصغیر کے انتہا پسند سماج کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے یہاں کے لوگ خود دیکھنا نہیں چاہتے ۔۔ اور دنیا کی بات انھیں دشمنی لگتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کا مستقبل انتہا پسندوں کی مرضی کے مطابق بنتا جا رہا ہے اور انجام فطرت کی مرضی سے ہوگا۔۔۔ اس تلخ اور منکشف حقیقت کا اظہار علمائے عمرانیات اور ارباب سیاست کو وارا نہیں ہے ۔۔۔لے دے کے صرف ادب ہی رہ گیا کہ جس کی کھڑکی سے ہم اس بھیانک انجام کی کوئی جھلک دیکھ سکتے ہیں ۔
اب دنیا کا بڑا ادب سیاست کے جبر سے برآمد ہوگا
مشرف عالم ذوقی یہ وہ جملہ ہے جو مشرف عالم ذوقی نے صفدر زیدی کے ناول بھاگ بھاگ بھری کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ ایسا ہو رہا ہے یا نہیں۔ لیکن صفدر زیدی نے وسیع سماجی اور عالمی تناظر میں یہ ناول لکھ کر مکالمے کی ابتداء کردی ہے ۔ مشرف عالم ذوقی نے ناول میں پیش کی گئی سن 3000ء کی ممکنہ صورت حال پر بھی اس دیباچہ میں ایک سوال اٹھایا
میں مکانی تصرف کے ساتھ وہ قول یہاں نقل کر رہا ہوں
،، کیا مذہب کا تہذیب پر غالب آجانا انسانی تہذیب کی تباہی اور بربادی ثابت ہوگا؟؟
مشرف عالم ذوقی کی ادب اور تاریخ کے حوالے سے اس رائے کے تناظر میں ایک اور مکالمہ کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ جس مکالمے کو صفدر زیدی نے، بھاگ بھری،، کی صورت میں اردو دان طبقے اور پھر کئی دیگر زبانوں میں ترجمے کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔۔ امید ہے یہ داستاں اب پردہ سکرین پر بھی ہمارے سامنے آ جائے گی
لفظ زاد
کوئی تبصرے نہیں
Hi