Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

پاکستان کے نامور محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم اور شاعر ڈاکٹر انیسؔ ناگی صاحب کا یومِ ولادت

  ؍ستمبر 1939 پاکستان کے نامور محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم اور شاعر ڈاکٹر انیسؔ ناگی صاحب کا یومِ ولادت.... نام یعق...

 


؍ستمبر 1939


پاکستان کے نامور محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم اور شاعر ڈاکٹر انیسؔ ناگی صاحب کا یومِ ولادت....


نام یعقوب علی ناگی اور تخلص انیسؔ ناگی تھا۔

10؍ستمبر 1939ء کو شیخوپورہ میں مولوی ابراہیم ناگی کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے مسلم ہائی سکول نمبر 2 لاہور سے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین راوی کے مدیر بھی رہے۔ بعد ازاں انیس ناگی نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن سمیت مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ 1999ء میں وہ بورڈ آف ریونیو کے ارکان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

انیسؔ ناگی 07؍اکتوبر 2010ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ علامہ اقبال ٹائون رضا بلاک کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہیں۔

انیسؔ ناگی کی شاعری اور نثر کی پچاس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں۔

ابھی کچھ اور، ایک گرم موسم کی کہانی، آگ ہی آگ، بشارت کی رات، بیابانی کا دن، بیگانگی کی نظمیں، بے خوابی کی نظمیں، بے خیالی میں، نوحے، روشنیاں، زرد آسمان،

غیر ممنوعہ نظمیں، صداؤں کا جہاں، زوال، ایک لمحہ سو چ کا، چوہوں کی کہانی، درخت مرے وجود کا، دیوار کے پیچھے، کیمپ، گردش، محاصرہ، میں اور وہ، سکریپ بک، قلعہ، ناراض عورتیں، ایک ادھوری سرگزشت، اور جنس اور وجود وغیرہ۔

‎#بحوالہ_ویکیپیڈیا 


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


 ممتاز شاعر انیس ناگی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب نظمیں بطورِ خراجِ عقیدت........


میں 

حیات مہمل کی جستجو میں 

سفر زمانے کا کر چکا ہوں 

میں اک جواری کی طرح ساری بساط اپنی لٹا چکا ہوں 

میں آدمی کے عظیم خوابوں کی سلطنت بھی گنوا چکا ہوں 

نہ جیب رخت سفر کا تحفہ لیے ہوئے ہے 

نہ ذہن میرا کسی تصور کا دکھ اٹھانے 

کسی محبت کا بوجھ سہنے کے واسطے اختلال میں ہے 

میں فاتح کی طرح چلا تھا 

جو راستے میں ملے مجھے 

وہ تیغ میری سے کٹ گئے تھے 

میں زائروں کے لباس میں 

قرض خوں بہا کا اتارنے، سر منڈا کے یوں ہی نکل گیا تھا 

کہ لوٹ آؤں گا 

ایک دن 

پھر بتاؤں گا میں حیات مہمل کا راز کیا ہے؟ 

یہ خواب ہے یا خیال ہے؟ 

میں حیات مہمل کی جستجو میں 

سفر زمانے کا کر چکا ہوں 

میں بے نوا بے گیاہ اور بے ثمر شجر ہوں 

جو سو زمانوں کی دھول میں بے بصر بھکاری کی طرح 

اپنی ہی آستیں میں لرز رہا ہے!


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


کس تصور کے رقص میں گو 

تری صدا کا وجود مجھ کو ملا نہیں ہے 

کسی کتاب کہن میں چلتی عظیم دانش کے نقش پا میں 

ترے بدن کا نشان مجھ کو ملا نہیں ہے 

میں چار سمتوں سے پوچھتا ہوں 

عناصروں کے تغیروں سے 

میں سلطنت کے نجومیوں سے 

یہ پوچھتا ہوں 

کہ کون ہے تو 

جو میرے خوابوں کے سلسلے میں 

مرے تفکر کے راستوں میں 

نئے تنازعوں کا بیج بو کر چلی گئی ہے 

کہاں کہ مجھ کو پتا نہیں ہے 

زمیں کے نقشے پہ آبناؤں کے ساتھ چل کر 

کبھی صدا سے بھی تیز چلتے جہاز کے دائرے دریچے سے سر لگا کر 

میں ارغوانی شراب تھامے 

دبیز شیشوں کی دوربیں سے 

نگاہ کی آخری حدوں تک ترے تصور کو دیکھتا تھا 

مگر خلا کے سوا کہیں کچھ نظر نہ آیا 

یہ سوچتا ہوں کہ میں تصور کے آئینے میں 

سلیس باتوں کے پیرہن میں 

تجھے اتاروں تو کس طرح میں 

جو زندگی کے تضاد میں ہے 

جو آرزو کے فساد میں ہے 

جو تیری خاطر تمام دنیا کی عشرتوں سے فرار ہو کر 

نئے تمدن کے زائچے میں 

نئی علامت کے دائرے میں ترے قدم کے نزول کو پھر 

تلاش کرنے کی کشمکش سے گزر رہا ہے 

چراغ جس کے دماغ کا 

اک مراقبت میں سلگ رہا ہے 


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


ہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے 

کہاں زندگی ہے؟ 

کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو 

جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا 

اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے 

کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو 

یہاں ہر نفس بے صدا ہے 

یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر 

ہر اک وفا تیرگی کا ستوں ہے 

چلو خواہشیں ڈھونڈنے 

بن سنور کے چلو خواہشیں ڈھونڈنی ہیں 

نہیں تو یہی خامشی بھوت بن کر 

گھروں کے کواڑوں کے پیچھے ہمیشہ ڈراتی رہے گی


                      💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️

کوئی تبصرے نہیں

Hi