عطا جسے ، تِرا عکسِ جمال ہوتا ہے وُہ پُھول سارے گُلستاں کا لال ہوتا ہے تلاش کرتی ہے سائے تمہارے آنچل کے چَمن میں بادِ صبا کا ، یہ حال ...
عطا جسے ، تِرا عکسِ جمال ہوتا ہے
وُہ پُھول سارے گُلستاں کا لال ہوتا ہے
تلاش کرتی ہے سائے تمہارے آنچل کے
چَمن میں بادِ صبا کا ، یہ حال ہوتا ہے
رہِ مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر ، یہ اہلِ نظر کا خیال ہوتا ہے
یہ واردات بھی اب دِل پہ روز ہوتی ہے
مسرتوں میں بھی ہم کو ملال ہوتا ہے
بہار فطرتِ صیّاد کی کہانی ہے
کہ اس کے دوش پہ پُھولوں کا جال ہوتا ہے
یہ بکھرے بکھرے سے گیسُو ، تھکی تھکی آنکھیں
کہ جیسے ،،، کوئی گُلستاں نڈھال ہوتا ہے
جواب دے نہ سکیں جس کا دو جہاں ساغرؔ
کِسی غریب کے دِل کا سوال ہوتا ہے
~ساغرؔ صدیقی
کوئی تبصرے نہیں
Hi