Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

ماہر پریم چند، سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی، معروف ادیب و شاعر ”#پروفیسر_جعفرؔ_رضا صاحب“ کا یومِ ولادت

  آج - یکم؍دسمبر 1939 ماہر پریم چند، سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی، معروف ادیب و شاعر ”#پروفیسر_جعفرؔ_رضا صاحب“ کا یومِ ولادت..... ...

 

ماہر پریم چند، سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی، معروف ادیب و شاعر ”#پروفیسر_جعفرؔ_رضا صاحب“ کا یومِ ولادت

آج - یکم؍دسمبر 1939


ماہر پریم چند، سابق صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی، معروف ادیب و شاعر ”#پروفیسر_جعفرؔ_رضا صاحب“ کا یومِ ولادت.....


#پروفیسر_جعفرؔ_رضا کی ولادت یکم؍دسمبر 1939ء کو الہ آباد، اترپردیش میں گنگا پار کے مردم خیز قصبہ اُتراؤں میں ہوئی۔ اُن کے والد ماجد مولوی سید خیرات حسن مرحوم مجاہد آزادی تھے۔ چند کتابیں یادگار ہیں۔ انھیں کی نگرانی میں ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ لائق فرزند نے الہ آباد یونیورسٹی سے بی کام کے بعد اردو میں ایم اے کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ہی پہلے اردو میں مرثیہ، پھر ہندی میں پریم چند سے متعلق مختلف دو موضوعات پر دو بار ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ کشمیر یونیورسٹی نے پریم چند سے متعلق مطبوعات کے اعتراف معیار میں ڈاکٹر آف لٹرس کی ڈگری تفویض کی۔ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں بیک وقت ان اعلیٰ ترین ڈگریوں کا حامل ہونے کی بنا پر تعلیمی اسناد میں کوئی اُن کا مد مقابل نہیں ہے۔ پروفیسر جعفرؔ رضا نے الہ آباد یونیورسٹی میں تقریباً 35 سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ درمیان میں چند برس کشمیر یونیورسٹی میں گزارے۔ مختلف عہدوں پر فائز ہوئے۔ کئی اردو ہندی رسائل کی ادارت کرتے رہے۔ الہ آباد یونیورسٹی میں پریم چند چیئر اور صدر شعبہ اردو کے عہدہ سے 1999ء میں سبک دوش ہوئے۔ حکومت ہند، ریاستی سرکاروں، مختلف کمیشنوں، کونسلوں، اکادمیوں اور یونیورسٹیوں کی اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔ ملک و بیرونجات کی علمی و ثقافتی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ متعدد گراں قدر انعامات ملے اور جمہوری اسلامی ایران کے یوم آزادی 1992ء کے موقع پر تمغہ طلائی سے مزین کیے گئے۔ پروفیسر جعفر رضا کی نگارشات میں زندہ و تابناک زبان کا حسن، اسلوب میں ندرت اور تخلیقی معنویت ہوتی ہے۔ تقریباً تین درجن کتا بیں شائع ہو کر مقبول و معروف ہو چکی ہیں۔ اردو ہندی رسائل میں بعض اچھی کہانیاں لکھیں۔ وہ خوش فکر و اہل بصیرت شاعر تھے۔ پریم چند ادبیات کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ ممتاز و منفرد ناقد محقق تھے لیکن اُن کی اصل شہرت و عظمت اردو اور ہندی دونوں زبانوں پر عالمانہ دسترس کی بنا پر ہے۔ مذہب و فلسفہ، تاریخ و ثقافت اور کلاسیکی ادبیات سے عصری میلانات تک مختلف و متنوع موضوعات پر اعلیٰ تصانیف کی کہکشاں پھیلی ہوئی ہے۔

پروفیسر جعفرؔ رضا 10؍نومبر 2022ء کو الہ آباد، اترپردیش میں انتقال کر گئے۔

#بحوالہ_مجموعۂ_کلام_برف_کی_آگ


         ✨🌹  پیشکش : شمیم ریاض


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


💫🍁 معروف شاعر پروفیسر جعفرؔ رضا کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت.....🍁💫


دیکھے تو تمدن کا بننا کوئی اردو میں

بیگانہ مزاجوں کی ہے دوستی اردو میں


الفاظ نئے ڈھالے کیا کیا نئی اردو میں

رائج متبادل ہیں جن کے کئی اردو میں


ہے قید علاقے کی مذہب کی نہ ملت کی

ملتے ہیں دل و جاں کے رشتے کئی اردو میں


ژولیدہ بیاں وہ ہیں پیچیدہ زباں ان کی

اک شرط صفائی کی بس رہ گئی اردو میں


ہے ترجمے کے بل پر یہ دام زباں دانی

اک کاوش بے دانش پھر پھنس گئی اردو میں


اب شاید اسی صورت کچھ بات بنے ان کی

سوچی تھی جو انگلش میں تحریر کی اردو میں


یہ ان کی نگارش ہے یا دوسروں کی اترن

یہ ساری بڑی باتیں ہیں کون سی اردو میں


دیکھی جو مری اچکن وہ شوخ پکار اٹھا

جچنے لگے سرکار اب اپنی نئی اردو میں


کیا خوب ہی جچتی ہے ان مشرقی کپڑوں میں

انگریزی میں یہ کیا تھی کیا ہو گئی اردو میں


شکوہ نہ شکایت ہے پیچیدہ بیانی کی

کیوں تلخ یہ لہجہ ہے کہیے بھئی اردو میں


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


حدیث عشق کو عنوان لا جواب ملا

مجھے نگاہ ملی ہے اسے شباب ملا


ہمیں نصیب سے قرآن لا جواب ملا

ورق جہاں سے کھلا زندگی کا باب ملا


خدا کے فضل سے جویائے علم و دانش کو

نبی سا شہر ملا اور علی سا باب ملا


گناہ گار ہمیں تھے تمام خلقت میں

ہمیں کو اشرف مخلوق کا خطاب ملا


بس ایک خواب کی تعبیر ڈھونڈھتے گزری

تمام عمر کا حاصل بس ایک خواب ملا


جھکی جھکی سی نگاہوں میں اضطراب نہاں

نہ جانے کتنے حجابوں میں بے حجاب ملا


جمال یار کی رعنائیوں میں آخر شب

کہیں یہ کاہکشاں تھی کہیں شہاب ملا


زمین شعر ہوئی آفتاب برج شرف

انیسؔ فن میں ترے لطف بو تراب ملا


سخن سمجھتے ہیں جعفرؔ رضا کئی احباب

جو راہ شوق میں نغمات کا سراب ملا


                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑


چاندنی رات میں صندل سا بکھرتا سایہ

ایک آسیب کی صورت نظر آیا سایہ


سر پہ سورج ہے مگر حشر کا میدان نہیں

جانے کیوں راہ میں قدموں سے ہے الجھا سایہ


فرد کی ذات میں نادیدہ نظارے کی طرح

سائے کے ساتھ ٹہلتا نظر آیا سایہ


یہ بھی وارفتگئ شوق میں ہوتا ہے گماں

ابھی آیا ہے مرے پاس مہکتا سایہ


یہ وہی لوگ ہیں جو دن میں تھے میرے جیسے

شام کے وقت نظر آتے ہیں سایہ سایہ


منجمد روشنی پھوٹی تھی کسی چادر سے

میں نے کل ابر سے چھنتا ہوا دیکھا سایہ


کل تک اس سایۂ دیوار میں دم ملتا تھا

زندگی لگتی ہے اب ایک کھنڈر کا سایہ



                      💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠 


        🌹 پروفیسر جعفرؔ رضا 🌹


        

کوئی تبصرے نہیں

Hi