کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے بجھتے دیے نے وقت سحر دیکھنا بھی ہے بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے شاخ نظر پہ حسن ثمر دی...
کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے
بجھتے دیے نے وقت سحر دیکھنا بھی ہے
بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے
شاخ نظر پہ حسن ثمر دیکھنا بھی ہے
اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور
پتھر ہے آئنہ کہ گہر دیکھنا بھی ہے
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
ان آنسوؤں کے ساتھ بصارت ہی بہہ نہ جائے
اتنا نہ رو اے دیدۂ تر دیکھنا بھی ہے
ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنا
رک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے
منظر ہے دل خراش مگر دل کا کیا کریں
گو دیکھنا نہیں ہے مگر دیکھنا بھی ہے
اس آس پر کھڑے ہیں کہ اک بار یوسفیؔ
اس نے ذرا پلٹ کے ادھر دیکھنا بھی ہے
اشرف یوسفی
کوئی تبصرے نہیں
Hi