وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا...
وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن؟
صدا تو آئی مگر کوئی بھی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی وہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی
نصیر ترابی
نکے ٹانکے ...نصیر ترابی یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟اپنی تنہائی میں مست الست ایک آدمی، جس کا بڑا پن بونوں کے اس ہجوم میں کہیں ادھر اُدھر ہو گیا ہے۔نصیر ترابی پر ہمہ وقت کسی ایسے آدمی کی سی سرخوشی طاری رہتی ہے، جس نے جان بوجھ کر فراموشی سے ٹانکا جوڑ رکھا ہو ۔مجھے گمان سا گزرتا ہے جیسے یہ آدمی اکثر اپنے کسی باطنی مطالبے کے ناآسودہ رہ جانے پر ایک قسم کے مخفی اشتعال میں مبتلا رہتا ہے ،گویا مٹّی کے کوزے کو قدرے زیادہ آنچ دکھائی دی گئی ہو ۔جب میرے یار میں یہ شعلگی اپنے جوبن پر ہو تو وہ کسی کے لیے بھی ایک مہلک ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے، ورنہ عام طور پر نصیر کو ایک ہموار اور خوش کلام آدمی کا تعارف حاصل ہے ۔ایک تازہ کار شاعر جسے اپنے ڈھب سے زندگی کرنے کی للک گھیر گھار کر ایک ایسے گوشے میں لے آئی ہے جہاں اُسے اپنی بازگشت کے سوا کچھ اور ذرا کم سنائی دیتا ہے ۔ایسے میں کیا عجب اگر کوئی نامانوس دستک، اُس کی فراغ پیشانی پر ناگوار سلوٹوں کا جال سا بُن دیتی ہے۔ماضی کے دریچوں سے جھانکتی پرچھائیاں اور خوش سواد سود ائیوں کا انبوہ اُسے بے کل رکھتا ہے۔اس مردِ عجیب کی خود اختیاری تنہائی، اُس میں زندہ رہنے کی ترنگ کو تازہ دَم رکھے ہوئے ہے ۔نصیر ترابی ایک نفیس اور کمیاب چیز ہے ۔ایک مشکل آدمی ، جس کی توجہ حاصل کرنے کے بعد اُسے متواتر متوجہ رکھنا ایک الگ طرح کا قرینہ چاہتا ہے ۔پرائے لفظ یا لہجے کی معمولی سی اونچ نیچ اس ترازو کے اوزان بدل سکتی ہے، پھر نہیں معلوم کہ کیا پیش آجائے ۔اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کج فہمی کے غیر متوقع نتائجمرتب ہو سکتے ہیں۔اگر آدمی اپنے عکس کا حلیف ہو جائے تو آئینے کی کم طاقتی اُس کا منہ چڑانے لگتی ہے۔نصیر کی زندگی ایک جاگتے ہوئے آدمی کا خوا ب ہے ۔ایک خوش قامت وجیہہ آدمی جس کی اُور ادھیڑ عمری لپکی چلی آتی ہے لیکن اس گھمسان میں بھی میرا یار شخصی کشش کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔آج بھی اُس کی ذات میں وہ گمشدہ مہک زندہ ہے جب ایک سنگین دلکشی ہر دَم اُس کے ہم قدم رہا کرتی تھی۔یہ آدمی اپنی اٹھان کے دنوں میں کیسا دکھائی پڑتا تھا ؟سر پر ڈیرہ ڈالے گہرے گھنے اندھیر ے میں ایک آڑی پگڈنڈی جو اُس کی کشادہ پیشانی پر دمکتے اُجالے کو مزید اُجال دیتی ۔اس خیرگی پر خطِ اختتام کھینچتی ہوئی دو سیاہ بھنویں اور اُن سے زرا نیچے کو دوکٹاری آنکھیں ، جن کی ہیرا پھیری کا کوئی توڑ نہ تھا اور چوکس کھڑی ناک کے نسبتاًچوڑے نتھنے، جنھیں دور سے سونگھ لینے کا وصف حاصل تھا، ترشے ہوئے ہونٹوں پر ایک بھید بھری مسکراہٹ ،جس پر اس مسکراہٹ کا بھید کھلا وہ اپنے آپ سے جاتا رہا، گال جیسے موسم کاپہلا سرخ سیب، جسے دو برا بر حصوں میں بانٹ لیا گیا ہو ، نصیر ترابی کے اڑیل مزاج کی چغلی کھاتی ہوئی ٹھوڑی، جس پر ہلکا سا چاۂ زخنداں جو اپنا ایک الگ حسن رکھتا تھا ، رنگت جیسے صحرا کی چاندنی جنگلی گلاب سے لپٹ کر چلی آ رہی ہو ، کسی کھلاڑی کاسا چست بدن اور اس پر میرے یار کا ملبوساتی انتخاب کا ڈھنگ ،جس کے لیے داخلی جمال کا رچاؤ ازبس لازمی ہوا کرتا ہے اور اُس پر سوا نصیرِِ خیز کی جامہ زیبی جس نے جناح کالج کی راہداریوں سے کرکٹ کے میدان تک یکساں اُودھم مچا رکھا تھا ۔اور اُن چھلکتے دنوں میں مزاج کے تیور؟ارے صاحب! جس آدمی نے ہوش مندی کی پہلی سانس کے ساتھ ناز برداروں کے پرے کے پرے کو اپنا دائرہ کیے دیکھا ہو، تو پھر کیا تعجب اگر اُس کا مزاج ٹھکانے پر رہ پائے۔نصیر کو ساعتِ اوّلیں ہی سے کچھ ایسے رچاؤ اور توجہ سے برتا گیا کہ اُس کے ذہن کی تشکیلی بنت میں کئی نازک گرہیں پڑتی چلی گئیں۔اُس کے قلب و ذہن میں یہ خیال کسی نقرئی گھنٹی کی مستقل گونج کی طرح جڑیں پکڑ گیا کے مجھ میں کچھ ایسا عجب ہے جو کسی اورمیں کہاں ؟ حالاں کہ بڑے پن کا یہ گمان ابھی محض اُس کی ایک خوش خیالی ہی تھی ۔اس منزل تک رسائی کے لیے ایک کڑی ریاضیت ابھی اُس کی راہ تک رہی تھی، لیکن فہم کی کجی کاکیا کیجیے کہ اس سوارِ بے بہار کو اپنی رفتار پر ایمان آ چلا تھا ۔اسکول کے بعد جناح کالج اور پھر الحسن کافی ہاؤس تک نصیر کو اپنی جتنی عمر بتائے ہوؤں کے بیچ ہمیشہ اپنا سر نکالنے کا موقع نصیب رہا، لیکن ٹھہریے! الحسن ابھی بہت بعد کا قصہ ہے ۔ سب سے پہلے جناح کالج، جہاں نصیر کی خوب روئی، مکالمے ،جامہ زیبی اور شعرفہمی کی دھوم مچی ہوئی تھی ۔جب میرا یار اپنی موٹر دوڑاتا کالج پہنچتا تو آنکھوں کی کتنی ہی کنواری جوڑیاں اُس کی راہ کو اپنی بے تابی سے سنوارنے لگ جاتیں۔اُن کے ارمانوں کی اتھل پتھل او رچہروں کی گل ناری اپنی جگہ، لیکن اس مرحلے پر بھی نصیر خواب واقف تھا کہ پانسہ پھینکنے کے آداب کیا ہوتے ہیں؟ وہ جانتا تھا کہ بے نیازی کہیں کہیں توجہ اور تبسم سے زیادہ پھرتی کے ساتھ اپنا کام تمام کر جاتی ہے ۔اُسے تو یہ تک معلوم تھا کہ ایسی صورت حال میں نظر کا زاویہ کہاں اور کس ڈگری پہ رہنا چاہیے ۔کیا نصیر ترابی ٹھیک وہی آدمی ہے جس سے ہم اور آپ واقف ہیں؟نہیں صاحب! ایسا تو شاید کسی سادہ کار کے بارے میں قیاس کرنابھیعبث ہے ۔ہر آدمی اپنا ایک الگ افسوں رکھتا ہے ۔اس نوٹنکی میں ایک ہی فرد کے ہزاروں روپ اور لاکھوں پینترے ہوتے ہیں اور ایسے میں دیکھنے والی آنکھ کو چوک جانے کی مجبوری سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔اب جو آپ نصیر ترابی کی پوچھتے ہیں تو جناب ایسے پُر پیچ کو دریافت کرنے کے لیے جس درجے کا ارتکاز اور تحمل درکار ہے وہ اتفاق سے عام نہیں اور جب ایسا ہے تو آپ ہی فرمائیے کہ مجھ ایسے جلد باز کہاں جائیں؟ ...لیکن مجبوری یہ ہے کہ میں اس کٹھنائی میں جکڑا جا چکا ہوں۔ اب اس کٹھن کو آسان کرنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا، چاہے اس کے لیے میری بصارت کو بصیرت کا ایک نیا رابطہ ہی کیوں نہ مرتب کرنا پڑے ۔نصیر ترابی کی گنجان شخصیت میں ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ اُس کی کھوج میں نکل کے خود مجھے اپنے کھو جانے کا ڈھرکا لگا رہتا ہے، لیکن یہ سوچ کے جی ٹھہرتا ہے کہ اس قبیل کے لوگ جسے دوست جانتے ہیں اُسے کھودینے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔اس آن نصیر میرے تصور میں مجھ سے ٹھٹھول پر تلا ہوا ہے، میں اُسے ایک رخ سے دیکھتا ہوں اور ابھی میری نظارگی تمام بھی نہیں ہو پاتی کہ وہ ایک اور پہلو سے مجھ پر کھلنا شروع ہو جاتا ہے ۔یہ آدمی صد رنگ سہی اور میری بے چارگی بھی برحق، لیکن اب مجھ پر ایک قسم کا غصہ غالب آ چکا ہے۔ مجھے چار و ناچار اس آدمی کو اُس کے رنگوں سمیت سیاہ و سفید میں قید کرنا ہے ۔ایک جھلمل کرتے ریشمی پردے کے اُس پار میرا یار موجود تو ہے لیکن ایسے یارِ طرح دار کو پرت پرت کرکے لفظوں میں تصویر کرنا مجھے بے تال بھی کر سکتا ہے ۔اس ضد بازی کے دوران اجنبی آوازوں کا آہنگ میرے چاروں اُور مورچہ بند مجھے ایک عالم نادیدہ کی راہ سمجھارہا ہے ۔’’الفاظ ‘‘پیرہن بدل بدل کے معنی کی تلاش میں مجھے کسی دور افتادہ، جہانِ خیال کی سمت بہائے لیے جا تے ہیں ۔فضا میں بکھری ہوئی نغمگی کا دھیما پن مجھے سرشار کیے دیتا ہے ۔آپ خیال کر رہے ہوں گے کہ میں ایک آدمی کو کھوجتے کھاجتے یہ کس الٹے سیدھے میں پڑ گیا ہوں ؟میں اس وقت ایک کتاب سے دو چار ہوں ’’عکس فریادی‘‘ نصیر ترابی کا شعری مجموعہ ...لیکن یہ کون ساطلسم ہے کہ میں کتاب سے گزرتا ہوا ایک آدمی تک پہنچ کر اٹک گیا ہوں۔یہاں میرے سامنے ایک سوال آکھڑا ہوا ہے ۔کیا لکھا ہوا لفظ اپنے لکھار کو معلوم سے نامعلوم کے مرتبے پر فائز کر سکتا ہے ؟ میں حیران ہوں کہ تخلیق کی وہ کون سی قوت ہے جو مجھے برسوں سے اپنے مطالعے ،مشاہدے میں رہنے والے ایک آدمی کو نئے سرے سے دریافت کرنے پر اُکسا رہی ہے ؟نصیر ترابی کا شعری مجموعہ’’عکس فریادی‘‘ میرے لیے آب وگل کے اس عالمِ سرخ و سبز کی معنوی ترتیب سے آگاہی کا وسیلہ بنا ہے ۔اس تخلیقی گہما گہمی سے گزرتے ہوئے میں سرمستی کی ایک موجِ رواں سے نہال ہوتا رہا ہوں۔ابھی میں اس کتاب پر مزید کلام کا آرزو مند ہوں لیکن ذرا دیر کو ہم کتاب کو مؤخر کر کے شہزادۂ سخن کو دام سخن میں لانے کی سعی کرتے ہیں۔میرے یار کے تخلیقی بانکپن اور اُس کے سجیلے پن نے سلیم احمد ایسے کٹھور نقاد کو اسے شہزادۂ سخن کے لقب سے یا د کرنے پر اُکسایا اور اب عزیزم فراست رضوی شہر بھر میں اس لقب کی ڈفلی بجاتے پھرتے ہیں۔نصیر کی شخصیت سے چھلکتی شہزادگی ،متانت ،کروفر، تنک مزاجی اور سخن کاری پر یہ لقب سجتا بھی خوب ہے ۔شاعری اُس کے لہو کی تال پر رقص کرتی ہے اور لفظ تو میرے یار نے جیسے اپنے کر چھوڑے ہیں ۔جب جس لفظ کو چاہتا ہے ایک نئی معنوی چھوٹ کے ساتھ جلوہ کر دکھاتا ہے اور شاعری ہی کا کیا مذکور نصیر کی نثر بھی اپنا ایک الگ تیور رکھتی ہے۔جن حرف شناسوں نے نصیر کے شخصی مضامین پڑھ ،سن رکھے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ اگر کسی کو لفظ پر تصرف حاصل ہو جائے تو فقروں کا جادو کیسے سر چڑھ کے بولتا ہے۔نصیر اپنی پوٹلی میں جو جمع جتھا لیے پھرتا ہے وہ سب اُس کے ماضی کا ورثہ ہے۔ایک تابناک عہد کہ اگر آج کسی میں اُس کی معدوم ہوتی ہوئی جھلک بھی دکھائی پڑ جائے تو آنکھ حیران رہ جاتی ہے ۔شاید اس بیان سے ایک ابہام سا پیدا ہو چلا ہے ۔اس کہے کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچے پکّے بالوں والے نصیر ترابی کو ایک ذرا دیر کے لیے فراموش کرکے اُس چوکھٹ کی طرف پلٹنا ہوگا، جس کے مالک کا نقارہ ایک عالم میں گونج رہا تھا ۔اس نقارے میں ایک لڑکا بڑی ٹیڑھ کے ساتھ اپنی آواز درست کر رہا تھا ۔کون جانتا تھا کہ ایک دن یہی لڑکا اس خانوادے میں اپنی ایک الگ شمع روشن کر ے گا ۔نصیر کے ابتدائی دنوں نے جس رچاؤ کے ساتھ جو ترتیب و تہذیب پائی اُس میں اس چوکھٹ کی حاضری بھرنے والوں کا بھی اہم حصہ تھا ۔علامہ رشید ترابی کے وسیع دسترخوان پر منتخب اکابر مجتمع ہوتے ۔نوعمر نصیر اپنے بابا کے احباب کی چاکری پر چوکس رہتا ۔طعام سے قبل سلفچی میں ہاتھ دھلوانا اور بعد از طعام اُن کی جوتیاں سیدھی کرنا نصیر کی ذمہ داری ہوتی ۔رات دن کے اس مشغلے میں بناؤ کے سو بہانے تھے ۔کچی مٹّی ایک الگ ڈھنگ سے اپنا آپ منظم کر رہی تھی ۔نصیر کے اندر روشن چراغ کی دھیمی لو نے اُس کے اطراف کو منور کرنے کے لیے کرنیں بکھیرنے کا آغاز کر دیا تھا ۔علامہ کے دستر خوان پر ہمیشہ ایک مکالمہ گرم رہتا ۔نصیر کے لیے ان مکالماتی معرکوں میں سیکھنے اورسمجھنے کے لاکھ پہلو تھے۔ نصیر اپنی کم عمری میں بھی ایک الگ ساخت کا نوعمر تھا ۔نصیر کی فطر ذہانت کے ساتھ تربیت کا یہ اہتمام گویا سونے پر سہاگے کا کام دکھا رہا تھا۔نصیر نے ناموروں کی ان چوپالوں میں ماتھے کی لکیروں، آنکھوں کے زاویوں اور لہجوں کے بل کھاتے آہنگ سے ہوش مندی اور بالیدگی کا اوّلیں درس لینا شروع کیا، یہ ترتیب اُس کے آئندہ کا روزنامہ تیار کر رہی تھی ۔بلوغت کی سرحد کو چھوتے ہوئے نصیر ترابی کو اس سر گرمی کا تسلسل اپنے ہم سنوں کی نسبت کہیں زیادہ چالاک، چوکس اور باخبر بنا رہا تھا ۔اس نوخیزی میں بھی اُس کی شخصیت میں ایک تدبر آمیز سنجیدگی گھلی ملی دکھائی دیتی ۔اُس کی گفتگو میں چلبلاہٹ اور جملے کا تیکھا پن اپنی جگہ لیکن اُس کا مخاطب تو وہی ٹھہرتا تھا جو نصیر کے اپنے بنائے ہوئے زائچے میں اپنی گنجائش بنا پاتا، ورنہ پہلی ملاقات کے بعد آدمی کے لیے نصیر کے حلقے تک رسائی کسی کارِ محال سے کم نہ تھی ۔اس حوالے سے اُس کی تند مزاجی خود اُس کے دوستوں کو بدمزہ کر دیا کرتی ۔نصیر کی آنکھ خاصی پارکھ ہے، ممکن ہے خوبی بھی وراثت میں ملا ترکہ ہو، لیکن مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میرے یار کا یہ وصف اپنے ہی گھر کے دسترخوانوں سے چنے ہوئے لقمے ہوں۔ نصیر اور اُس کی شخصی انفرادیت جیسے ایک ہی پنگوڑے میں پلے بڑھے دو بچے ہیں ۔اُس پر مزید میرے یار کی بے نیازی، جس پر جانے کیوں سوچی سمجھی ادا کا خیال گزرتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ اگر آدمی شکم سیر نہ ہو تو اس پر مزاج کے یہ تیور بھلے نہیں لگتے ۔اگر نصیر محض ایک چلتر آدمی ہوتا توکیسے ممکن تھا کہ وہ امیر زادوں کو نظر انداز کرکے لالو کھیت کے ایک غریب زادے کو ترجیح دیتا؟ دراصل آدمی کی ترجیہات ہی اُس کیشناخت کا تعین کرتی ہیں۔نصیر ترابی کے جن دیرینہ دوستوں سے میں واقف ہوں، اُن میں عبیداللہ علیم ،اطہر نفیس ،نگار صہبائی ، احمد عمر شریف اور نیر سوز شامل ہیں۔اُن میں سے نیر سوز اور احمد عمر شریف، نصیر کے جناح کالج کے ساتھی ہیں ۔آدمی تو خیرایک اور بھی تھا لیکن جانے دیجیے، مخمل میں ٹاٹ کا پیوند کیا لگانا ۔ احمد عمر شریف اور نیر سوز آج تک نصیرکے ہمراہ ہیں۔نصیر ایک ذہین ،حسین اور فطین آدمی تھا ۔جناح کالج سے الحسن تک وہ جہاں بیٹھتا، مجلس کا سرخیل ہو جاتا ۔یہ نصیر کے بابا کی سرفرازی اور اس کی سرسبزی کا زمانہ تھا۔میرے یار سے لوگوں کی مرعوبیت کے کتنے ہی جواز تھے ،کچھ اُس کی خاندانی وجاہت، بعض ذاتی جاذبیت اور اکثر اس کے زورِ کلام اور سخن کاری کے اسیر تھے ،لیکن نصیر ترابی ریوڑ میں بھٹک جانے والا آدمی نہیں ہے۔اس میں اتنا دماغ کہاں کہ ہر ایرے غیر ے کا بوجھ ڈھوتا پھرے ۔وہ سنجیدہ رکھ رکھاؤ کا ایک لیے دیئے رہنے والا آدمی ہے جسے بدسلیقگی کو چھوتا ہوا جملہ گوارا نہ ہو وہ ایک پور ے بد مذاق کو کیسے برداشت کر سکتاتھا ۔اس حوالے سے نصیر کی ترشی بلکہ درشتی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔نصیر کہ بعض لوگوں سے روا رکھے جانے والے کھردرے رویے سے یہ تأثّر عام ہو گیا کہ وہ ایک گھمنڈی ہے، حالاں کہ یہ محض ایک ایسے تخلیق کار کا طمطراق تھا جس کے تئیں عدم تخلیقیت اور بے روح ہونا تقریباً ایک جیسی بات تھی۔وہ اپنی محفل اور سنگیتوں کو اس آزار سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔نصیر کی منڈلی سے بے دخل کیے جانے والے غیر تخلیقی لوگ شہر بھر میں میرے یار کی ہجو گاتے پھرتے، لیکن اِدھر اس ہاؤ ہو کی پروا کسے تھی ؟نصیر کو تو بس اس کی فکر تھی کے کس گٹھڑی میں دانائی کے کتنے ہیر ے موتی بندھے ہیں۔ اُسے تو جیسے جاننے کا ہوکا تھا ۔وہ لفظ و معنی کے اشتیاق میں اندرون و بیرونِ شہر کے دانش مندوں کے لیے ذہن و دل فرشِ راہ کیے رکھتا۔الحسن کی محفلیں آئے دن ادب کے جغادریوں کے حرفِ تازہ سے چہکتی مہکتی رہتیں ،یہ کافی ہاؤس علم وادب کی گویا ایک درس گا ہ تھی۔ایسے خوش نصیب کم ہوں گے جنھیں نصیر ایسی صحبتیں نصیب ہوئیں۔یہ میرے یار کی خوش نصیبی سے بڑھ کے اہل مندی تھی کہ اُسے جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض،ناصر کاظمی، زیڈ اے بخاری، مصطفی زیدی،سبطِ حسن اور عزیز حامد مدنی ایسے ناموروں نے اپنی محفلوں میں قبول و مقبول کیا ۔ اکتساب اور انتخاب کی راہ میں میرے یار کی پیش رفت گویا کسی چیونٹی کاسفرنامہ تھا، جو اپنے ہدف کے تعاقب میں پور ے یقین اور ولولے سے سرگرم سفر رہا کرتی ہے۔کیا نصیر ترابی کی تکمیل پسندی اُس کی کوئی نفسیاتی ٹیڑھ ہے ؟اگرکوئی اس بلا کا انفرادیت پسند ہو اور اُس کے ہر عمل میں ایک ٹیڑھ نہ ہو تو اُس کی داخلی بے اطمینانی تو اُسے ہلاک کر ڈالے ۔نصیر کی تکمیل پسندی کو ٹیڑھا پن کہنا نامناسب ہوگا ،شاید اسے ایک سلیقہ شعار کی وجدانی ضرورت کہا جا سکتا ہے ۔ہمیں نصیر کی اس نفسیاتی گراہ کو کھولنے کے لیے کچھ دور تک وقت کے مخالف سمت چلنا ہو گا ۔جب میرا یار نے اپنے بابا کی چھاؤں میں پروان چڑھ کے آگے بڑھنا چاہا تو خاندانی بزرگی ،تدبر آمیز گھریلو فضا اور ناموری اُس کی راہ کھوٹی کرنے کو مستعد کھڑے تھے ۔لیکن یہ کب ممکن تھا کہ ایسے اڑیل کو ہوا کے رخ چلنے پر آمادہ کیا جا سکے ۔وہ بڑے گھرکا ایسا ذہین بچّہ تھا جسے انگلی پکڑ کر چلنے سے ہمیشہ چڑ رہی تھی ۔ وہ آسان کو مشکل کرنے کا مزاج رکھتا تھا، ورنہ یہ کتنا سہل ہوتا اگر نصیر موروثی تکلم کی راہ اپناتا اور دنیا و آخرت کماتا۔اگر وہ اس راہ پر چل پڑتا تو شاید ہی ممکن تھا کہ کسی اور کی آوازاُس کا راستا روک سکتی، لیکن اُس نے تو کچھ اور ہی ٹھان رکھی تھی ۔نصیر نے یہ فیصلہ کرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگائی کہ اُسے اپنی الگ راہ چلنا ہے ، اپنا تعارف آپ قائم کرنا ہے۔وہ منفرد ہونے کا امیدوار تھا،یہاں مشکل یہ آ پڑی تھی کہ وہ جس سطح کے امتیاز پر راضی ہو سکتا تھا، اُس کے اپنے الگ تقاضے تھے ،یہ ایک باغی کا سا طرزِ عمل تھا ۔آخر اپنے ارادے کے عوض اُس نے اپنی آسودگی اور آسانیوں سے دست بردار ہونا قبول کر لیا ۔اس بلند ہمتی کے لیے جس قدر ہمت درکار ہوتی ہے وہ دوسرے تمام باغیوں کی طرح نصیر میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔میرا یار رشک آمیز حد تک سلیقہ پسند واقع ہوا ہے۔ جب تک ہر کیل کھانچا اپنی جگہ پر نہ بیٹھ جائے اُس وقت تک میرے یار کی بے کلی دیدنی ہو تی ہے۔نصیر اپنے مصرعوں اور جملوں کی ساختیاتی ترکیب و تکمیل میں اس درجے احتیاط، توجہ اور تردّد سے کام لیتا ہے کہ اچھی خاصی الجھن کا سامان ہو جاتا ہے ۔مشہور تو یہی ہے کہ ضرورت سے زیادہ گھوٹا لگانے سے تاثیر اٹھ جاتی ہے، لیکن میرے عزیز کا معاملہ کچھ جدا ہے ۔وہ جس قدر محنت کرتا ہے اُس کے جملے اور مصرعے اتنے ہی زیادہ چمک اٹھتے ہیں۔میرے یار نے بہرحال یہ ثابت کر دیا ہے کہ کرافٹ مین شپ کی اپنی ایک الگ سرگرمی ہے ۔نصیر اپنے تعلق سے شہرت رکھنے والی ہر چیز کو بے داغ رکھنے کے جتن میں رہنے والا آدمی ہے ۔یہ باترتیب آدمی جو ذرا فاصلے سے خاصامہلک نظر آتا ہے، اگر آپ کو اپنے قریب آنے کا راستا دینے پر رضا مند ہو جائے تو اُس ریشم و گداز کا کیا حساب جو نصیر ترابی اپنے احباب کے لیے بے حساب روا رکھتا ہے، لیکن اس مرحلے سے گزر جانا ایسا آسان نہیں کہ میرا دوست جانچ کا اپنا الگ معیاررکھتا ہے ۔انسان کی خود پسندی کسی طرح بھی شرمندگی کا جواز نہیں بنتی اگر آدمی اس پابندی میں توازن سنبھالے رکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔کبھی کبھی اپنی ذات سے محبت آدمی کو دوسروں سے پیار کرنا بھی سکھا دیتی ہے ۔نصیر اپنے آپ ہی سے محبت نہیں کرتا بلکہ جسے دوست مان لے اُس پر جان بھی وار سکتا ہے، یہ جدا بات ہے کہ جس میں جان دینے کا حوصلہ ہو اُس کے لیے جان لے لینا بھی معمولی بات ہو تی ہے۔نصیر کی تمام زندگی طرح طرح کی رنگین اور سنگین معرکہ آرائیوں میں بیت گئی۔جیسے یہ پلک جھپکنے کا کوئی قصہ تھا ۔ وہ منفرد تخلیق کار کی ایک جداگانہ شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہا ۔ اس بیچ کئی غیر ملکی پھیرے اور دور دراز تک اُس کے شاعرانہ جمال کی گونج اور اہم شاعر ہونے کا شرف اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ کی رکنیت کا دُہرا اعزاز اور مقتدر تعلیمی اداروں کی مشاورت اور ان سب سے پہلے روزنامہ ’’محاسبہ‘‘ اور ’’راز دار ڈائجسٹ‘ ‘ کے نگرانِ اعلیٰ کا افتخار اور اس سے اوّل اور اہم ایسٹرن فیڈرل یونین کی پی آر او شپ ،جس میں نصیر نے سبط حسن کی سربراہی میں زندگی کی پہلی باقاعدہ چاکری کا ذائقہ چکھا، اورا س کے علاوہ او ربہت کچھ جسے تفصیل کرنے کے لیے پورا دفتر درکار ہے۔میرا یار کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ اور صحبت یافتہ ذوق رکھتا ہے، جب وہ اپنی چوپال یا کسی چائے خانے میں ایک انہماک کے ساتھ اپنی دائیں بھوؤں کو انگشتِ شہادت سے کاڑھتے سنوارتے ہوئے سرگرمِ کلام ہو تو غیبت کے چٹخارے کے ساتھ اُس کی گفتگو میں گُھلی علم و آگہی کی آنچ، جملوں میں بہتی گرماہٹ اور معنوی گیرائی کی مہکار، سماعتوں کو ایک نئے قسم کی سمعی فضا سے مشک بار کرتی ہے ۔نصیر محفل باز آدمی ہے لیکن یہ مجلس اُس کی اپنی شرائط پر سجتی ہے مگر اب ایسے اسباب کہاں کہ ایسی کوئی منڈلی جمے۔عبید اللہ علیم ایسے جیوٹ رہے نا نگار صہبائی جیسے گیت کار نا ہی جون ایلیا ایسے موقع ساز اور نہ ہی اطہر نفیس جیسے معصوم و شکستہ دل، اب وہ محفلیں کہاں؟۔ لے دے کے اسد محمد خان، شکیل عادل زادہ اور افتخار عارف ہیں ، سُو اُن کی اپنی الگ محفلیں جدا مصروفیات، وہ پرانی محفلیں اب خواب و خیال ہوئیں۔اب اگر کچھ لوگ رہ گئے ہیں تو اُن میں احمد عمر شریف اورنیر بن سوز وغیرہ ہیں،جن کے دَم سے یہ پرانی رسم تازہ ہو جاتی ہے، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔اب تو ایک بولتی ہوئی تنہائی ہے جسے نصیر مہکائے دہکائے رکھتا ہے ۔میرے یار کی شگفتہ کلامی میں تیز مرچ کا تڑکا، اُس کا شوق اور دوستوں کے لیے درد مندی اُس کی مجبوری ہے ۔اگر کسی کا روزگار ی مسئلہ ہو تو میرا یار کسی بھی حد کو خاطر میں نہیں لاتا ،اسی رُو میں وہ محسن کشی کی زد پر رہتا ہے ۔ہمارے شہر کے ایک یار مار کا حافظہ ایسی مہربانیوں کے حوالے سے بے حد کند واقع ہوا ہے ۔دراصل کچھ لوگ ہر روز ایک نئے کاندھے کے سہارے سفر کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں،میں حیران ہوں کہ اہلیت کا افلاس بھی آدمی سے کیسے کیسے تماشے سر زد کرواتا ہے ۔نصیرترابی مدد کرتے ہوئے کھوٹے کھرے میں فرق روا نہیں رکھتا ۔میرے ایک دوست جسے میرا ہمزاد جانیئے، اپنی کہانی ان الفاظ میں بیان کرتا ہے، نصیر نے دو ایسے مواقع پر میرا ہاتھ تھاما جب بھوک میرے گھر پر پنجے گاڑے بیٹھی تھی،اُن دنوں عسرت میری ہر دَم کی رفیق ہوا کرتی تھی۔میں دیکھتا کہ میرا یار تقریباً ہر روز شام گہری ہوتے ہی موٹریا دوڑاتا چلا آتا اور رات گئے تک مجھ غریب کی دلجوئی اور میزبانی کیا کرتا ۔مجھ بے خبر سے ایسی مزے مز ے کی باتیں کرتا کہ مجھے یاد ہی نہ رہتا کے میں محض ایک کھوٹا سکہ ہوں۔اب خیال آتا ہے کہ وہ اُس زمانے میں شعوری طور پر مجھے اپنے برابر کا آدمی ہونے کا احساس دلایا کرتا تھا ۔ایسی ہی ایک رات وہ اچانک بولا:’’پیارے صاحب ! کل صبح دس بجے تیار رہنا ۔ایک آدمی سے ملوانا ہے ۔‘‘ دوسرے دن ٹھیک وقت پر ہارن کی آواز اور میں ترنت نیچے۔نصیر کی بغل میں ایک گول مٹول سا براجمان تھا ۔یہ ممتاز حسن تھے ۔ہم نصیر کے گھر پہنچے اور بس میں زرا سی دیر میں صاحبِ روزگار ہو چکا تھا ۔اس ملازمت میں میری زندگی کے چار بہترین برس گزرے۔اس دوران نصیر کے ماتھے کی کسی سلوِٹ سے یہ اظہار نہیں ہوا کے وہ مجھ پر کتنا بڑا احسان کر چکا ہے۔میں آج بھی اسی کے حوالے سے برسرِ روزگار ہوں۔کیا یہ یاد داشت سے محو ہونے والی باتیں ہیں؟نصیر اب شعر کہنا ترک کر چکا ہے۔یہاں ایسی سماعتوں کا قحط ہے جو شعر کی داد کا قرض اد ا کرسکیں۔میرے عزیز کی کتاب’’عکس فریادی‘‘ کی تقریب پذیرائی بھی اپنا ایک الگ رنگ رکھتی ہے ۔اس تقریب میں کئی نئی روایات قائم کی گئیں،تقریب کی غائبانہ صدارت ایک تصو یر نے کی، جس سے محترم عزیز حامد مدنی سے نصیر کی محبت واضح تھی۔احمد جاوید کو کراچی میں پہلی بار کسی کتاب کی تقریب میں کلیدی مضمون پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا ۔ احمد جاوید نے اپنی گفتگو میں ’’عکس فریادی‘‘ کے سرورق کو موضوعِ کلام بنایا۔یہ حیران کر دینے والی کمال کی گفتگو تھی، لیکن احمد جاوید نے کلام کے بہاؤ کو سرورق سے ایک انچ آگے نہیں بڑھنے دیا ۔سامعین نصیر ترابی کی شاعری پر احمد جاوید کی رائے سے محروم رہے ۔شاید اُس وقت تک احمد جاویدصاحب کو کتاب کا سرورق پلٹنے کی فرصت میسر نہیں آ سکی تھی۔ا س کے باوجود یہ ایک باوقار تقریب تھی جس کے سلیقے اور حسنِ انتظام نے شہر کی ادبی محافل کو ایک نیا اعتباربخشا۔نصیر کی زندگی کا بڑا حصہ جیسے کسی میلے کی سیر کرتے گزرا ہے ،ایک عجب طرح کی ہماہمی، ایک ایسی سرشاری جو آخر آخر آدمی کو تنہا کر دیتی ہے، یہ وہ تنہائی ہوتی ہے جو ہجوم میں زیادہ چوکھے پن سے اپنا جوبن دکھاتی ہے ۔اس ہجوم میں یہ تنہا آدمی ،ہر فرد کو اپنی ذات میں اسیر دیکھ کے حیران رہ جاتا ہے لیکن اس تماشے میں اکثر اُس کی نظر خود اپنے آپ پر سے ہٹ جایا کرتی ہے ۔ایک مردہ معاشرے میں آدمی کا اصیل ہونا اُس کے لیے ایک تہمت بن جاتا ہے، ایسے میں آدمی کی خاموشی ہی اُس کا سب سے بڑا احتجاج ہوتی ہے۔نصیر اب ادھیڑ عمری کو آ لگا ہے لیکن اب بھی وہ پوری توانائی اور آسودگی سے زندگی کرتا ہے، اندر کی بے کلی اس سے بالکل الگ نوعیت کا قصہ ہے ۔اب میر ا یار خاموش اور سب سے الگ تھلگ اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا میں اس طور صبح کو شام کرتا ہے جس کا اُس نے زندگی کے ابتدائی دور میں سوچ رکھا تھا ،اس مہکتی بہکتی تنہائی میں نصیر کو اپنی پسند کا ماحول میسر ہے ۔نصیر کی شخصی بنت میں ایسے بانکے ٹانکے استعمال ہوئے ہیں کہ ہر چلتی پھرتی آنکھ اس تانے بانے کی اُدھیڑبن کا آسانی سے احاطہ نہیں کر سکتی ۔نصیر ایسے زندہ آدمی کا آغاز لکھنا آسان سہی لیکن اختتام کرنا مشکل ہوتا ہے اور سرِدست مجھے یہی مشکل درپیش ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں
Hi