Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے راحت اندوری

 

روز  تاروں کو نمائش میں خلل  پڑتا  ہے چاند  پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے  ایک  دیوانہ مسافر  ہے مری آنکھوں میں وقت  بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے  اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے  روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز  شیشوں  سے  کوئی  کام نکل پڑتا ہے  اس کی یاد  آئی  ہے سانسو ذرا آہستہ چلو دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے  راحت اندوری

 

کوئی تبصرے نہیں

Hi