Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

اردو ترجمہ فیروز خان افریدی

  اردو ترجمہ فیروز خان افریدی کیا آپ جانتے ہیں کہ 1973 میں اُس وقت کے زائیر (موجودہ کانگو) کے صدر جنرل موبوتو سیسے سیکو نے موریتانیہ کا تین ...

 




اردو ترجمہ فیروز خان افریدی



کیا آپ جانتے ہیں کہ 1973 میں اُس وقت کے زائیر (موجودہ کانگو) کے صدر جنرل موبوتو سیسے سیکو نے موریتانیہ کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا؟ اُس زمانے میں موریتانیہ افریقہ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا، جس کی معیشت مچھلی کے شکار، زراعت اور بکریوں کی افزائش پر مبنی تھی۔


تین روزہ مذاکرات کے دوران صدر موبوتو نے یہ نوٹ کیا کہ اُن کے میزبان، موریتانیہ کے صدر مختار ولد داداہ — جو فرانسیسی نوآبادیاتی دور سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک کے پہلے صدر تھے — پورے دورے کے دوران ایک ہی سوٹ پہنے رہے۔ موبوتو کو احساس ہوا کہ اُن کے میزبان کے پاس مہنگے اور خوبصورت سوٹ خریدنے کے لیے کافی پیسے نہیں ہیں۔


دورے کے اختتام پر، نوواکشوط ایئرپورٹ کے روانگی لاؤنج میں، صدر موبوتو نے اپنے میزبان کو شرمندہ کیے بغیر، چپکے سے پانچ ملین ڈالر (پچاس لاکھ ڈالر) کا چیک صدر ولد داداہ کے سیکریٹری کے حوالے کر دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک نوٹ بھی دیا جس میں پیرس کے مشہور فیشن ڈیزائنرز کے پتے درج تھے، جہاں سے موبوتو خود اپنے سوٹ سلواتے تھے، تاکہ صدر مختار بھی وہاں سے اپنے رسمی لباس اور لوازمات خرید سکیں۔


موبوتو کے روانہ ہونے کے بعد، سیکریٹری نے وہ چیک صدر مختار کو پیش کیا اور بتایا کہ یہ موبوتو کی طرف سے تحفہ ہے تاکہ وہ پیرس سے لباس خرید سکیں۔

صدر مختار نے فوراً وہ چیک وزیرِ خزانہ کو دے دیا تاکہ اسے قومی خزانے میں جمع کرا دیا جائے۔


بعد میں، انہی عطیہ کردہ پیسوں سے موریتانیہ نے اعلیٰ تربیتِ اساتذہ کا اسکول (Higher School for Teacher Training) تعمیر کیا، کیونکہ ملک میں اساتذہ کی شدید کمی تھی۔


پانچ سال بعد، 1978 میں، موبوتو امریکہ سے واپسی پر مراکش میں ایک ہفتے کے لیے رکے۔ جب صدر مختار کو رباط میں اُن کی موجودگی کا علم ہوا، تو انہوں نے اُنہیں دوبارہ موریتانیہ آنے کی دعوت دی، چاہے مختصر ہی سہی۔


جب موبوتو کا قافلہ ہوائی اڈے سے صدارتی محل کی طرف جا رہا تھا تو انہوں نے سڑکوں پر فرانسیسی زبان میں لکھے بینرز دیکھے جن پر تحریر تھا:

“شکریہ زائیر، شکریہ موبوتو، اس تحفے کے لیے شکریہ۔”


محل پہنچنے سے پہلے ہی موبوتو نے گاڑی رکوائی اور ٹیچر ٹریننگ اسکول کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے صدر مختار سے پوچھا:

“یہ کیسا تحفہ ہے جس کے لیے موریتانیہ کے عوام میرا شکریہ ادا کر رہے ہیں؟ میں تو ابھی نوواکشوط پہنچا ہوں، نہ میں کوئی تحفہ لایا ہوں اور نہ دیا ہے۔”


اس پر صدر مختار مسکرائے اور بولے:

“یہی آپ کا قیمتی تحفہ ہے۔ پانچ سال پہلے جو پانچ ملین ڈالر آپ نے دیے تھے، انہی سے ہم نے یہ اساتذہ کی تربیت کا ادارہ تعمیر کیا ہے، کیونکہ ہمارا ملک غربت اور ناخواندگی سے سخت متاثر ہے۔”


یہ سن کر موبوتو نے اپنے میزبان کو گلے لگایا اور کہا:

“کاش افریقہ کے باقی رہنما بھی آپ کی طرح ہوتے، تو ہمارا براعظم جہالت، غربت اور پسماندگی کا شکار نہ ہوتا۔”


صدر مختار نے جواب دیا:

“میں قومی خزانے سے تنخواہ لیتا ہوں، لہٰذا بغیر معاوضے کے کام نہیں کرتا۔ آپ کا یہ عطیہ موریتانیہ کے عوام کا حق ہے۔ جہاں تک میری وضع قطع اور لباس کا تعلق ہے، یہ مناسب نہیں کہ میں دنیا کے بہترین کپڑے پہنوں جبکہ میرا عوام غربت میں جی رہا ہو۔ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہم ان بیماریوں اور رکاوٹوں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہماری ترقی میں حائل ہیں۔”


صدر مختار ولد داداہ (جن کا انتقال 2003 میں ہوا، اللہ انہیں جنت نصیب کرے) کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے، شان و شوکت اور فضول خرچی سے نفرت کرتے تھے۔ وہ صرف تین کمروں کے ایک عام سے گھر میں رہتے تھے۔


یہ سچی کہانی اُن تمام چوروں کے نام ہے جو حب الوطنی کے نعرے لگاتے ہیں اور مذہب کے پردے میں عوام کی روزی، خواب اور مستقبل چُرا لیتے ہیں۔


✍️ تحریر: لنڈا بینکس

کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ