مقبول عامر اردو کا جان کیٹس نقد و نظر : فرحت عباس شاہ خیبر پختون خواہ کے جن عظیم تخلیق کاروں نے اردو زبان و ادب کو اپنے حصے کے نٸے پن او...
مقبول عامر اردو کا جان کیٹس
نقد و نظر : فرحت عباس شاہ
خیبر پختون خواہ کے جن عظیم تخلیق کاروں نے اردو زبان و ادب کو اپنے حصے کے نٸے پن اور عظمت ِ فن کی دولت سے نوازا ان میں ایک توانا نام مقبول عامر کا ہے ۔ مقبول عامر جس عہد میں شاعری کر رہے تھے یہ ایک لحاظ سے اردو شاعری کی نشاط ِ ثانیہ کا دور تھا کہ اردو شاعری ایک طرف تو کلاسیکی دباو سے نکل کر زبان اور مضامین کی سطح پر جدید خد و خال پہن رہی تھی تو دوسری طرف فورٹ ویلٸیم کالج اور اس کے ایجنڈے کے تحت بناۓ گٸے دیگر اورٸینٹل کالجز اور انسٹیٹیوشنز کا لگایا گیا پودا ادب براۓ ادب کمزور پڑ رھا تھا ۔ برصغیر کے بٹوارے کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک تقسیم اور فسادات جیسے بڑے صدمات سے گزرنے کے بعد ازسر ِ نو تعمیر و ترقی کے عزم کے ساتھ تمام تر چیلنجز سے نمٹنے کی سوچ لے کر آ گے بڑھنے لگے ۔ دوقومی نظرٸیے کی کامیابی کے جوش کے ساتھ ساتھ ہجرت سے پیدا ہونے والی افسرددگی اور پارٹیشن کے دوران ہونے والی قتل و غارت گری کا ملال جہاں عام آدمی کو کچھ بہتر کر دکھانے اور شاندار مستقبل کی تعمیر پر ماٸل اور قاٸل کیے ہوۓ تھا وہاں تخلیق کار ، فنکار اور ادارے مل کر اعلی ادب ، موسیقی اور مصوری تخلیق کر رہے تھے ۔ اس عہد کے اخبارات ، جراٸد ، ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے فنون ِ لطیفہ کی ترقی و ترویج میں کردار پر غور کریں تو ایسا شاندار جذبہ اور ویژن نظر آتا ہے کہ جس کی مثال نہیں ۔ شکیب جلالی ، منیر نیازی ، ساحر لدھیانوی ، احمد فراز ، ن م راشد ، اختر حسین جعفری فیض احمد احمد ، ، ناصر کاظمی ، سلیم کوثر ، صابر ظفر ، عبید اللہ علیم ، رام ریاض ، بیدل حیدری ، شیر افضل جعفری پھر آگے چل کے عدیم ہاشمی ، محسن نقوی ، پروین شاکر اور پھر مقبول عامر اور کہیں فرحت عباس شاہ بھی ۔ اپنا نام اس لیے لکھا کہ جون 1989
کو میرا شعری مجموعہ ” شام کے بعد “ شاٸع ہوا اور ٹھیک ایک سال بعد مٸی 1990 میں مقبول عامر کا ” دیے کی آنکھ “ شاٸع ہوا اور ہم دونوں کے قلبی معاملات اور طرز احساس میں اتنی مماثلت ہے کہ ” شام کے بعد “ اور ” دیے کی آنکھ “ کے متوازی مطالعے پر پورا ایک مقالہ لکھا جا سکتا ہے ۔ بلکہ میں نوجوان محقق ، نقاد اور شاعر نذیر ساگر کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ مقبول عامر شناسی کے سلسلے میں ان دونوں شعری مجموعوں کے تقابلی جاٸزے کے موضوع پر ضرور کام کرواٸیں ۔
میرے اور مقبول عامر کے درمیان دوسری مماثلت مصنوعی اور مفاد پرست شاعروں اور ادب دشمن مدرس نقادوں کی طرف سے نظر انداز کیا جانے والا رویہ ہے ۔ مجھے انہوں نے میری زندگی میں نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور مقبول عامر کو اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں بخشا۔
کوٸی آج اگر میرے اس تھیسز سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن میں اسے اس امیدا پر دہراتا رہوں گا کہ شاید وہ دن آجاۓ جب ادب اور فنون لطیفہ کو کمرشلاٸزیشن کی چمکدار ایڑیوں کے نیچے کچل کے رکھ دینے والا سرمایہ دارانہ ایجنڈا سفید دن کی طرح لوگوں کو نظر آنے لگے ۔ قیام ِ پاکستان کے بعد ملک میں تخلیق کاروں کے لیے پیدا ہونے والے سازگار اور حوصلہ افزاء ماحول نے فنون لطیفہ کی نمو اور افزاٸش کے لیے جو فضا بناٸی اسے کی قوت دیکھ کر وہ قوتیں بھی اتنی ہی تیزی سے متحرک ہوگٸیں جتنی تیزی سے اعلیٰ فنون و ادب کی خوشبو پھیل رہی تھی ۔ ایک طرف فنون اور اوراق کو متحرک کرکے آپس میں الجھا دیا گیا ۔ دوسری طرف اخبارات کے ادبی صفحات کا اجراء ہونے لگا ، اورٸینٹل کالج جیسے اداروں کی پالیسیاں مزید شارپ کی جانے لگیں اور تیسری طرف سے سیاسی منظر کو آن کر کے بڑی باریکی کے ساتھ ساحر لدھیانوی کے مقابلے میں فیض احمد فیض ، فراز کے مقابلے میں ظفر اقبال ، منیر نیازی کے مقابلے میں امجد اسلام امجد ، صابر ظفر کے سامنے افتخار عارف ، پروین شاکر کے سامنے یاسمین حمید وغیرہ کو باقاعدہ طے کر کے پروموٹ کیا جانے لگا ۔ سلیم کوثر جیسے شاعر کی موجودگی میں جون ایلیاء کا بُت بنانا اور مقبول عامر جیسے بے مثال شاعر کے کلام کی موجودگی میں چل استاد جیسے بے جذبہ و بے برکت ، ان پڑھ اور مصنوعی شاعر کا نمایاں ہونا اور تمغے پہ تمغہ وصول کرنا سرمایہ دارانہ انسانیت دشمن نظام کا وہ میکنزم ہے جو ہر اس سوچ ، نظرٸیے ، علم ، عمل اور کردار کو فلٹر کرتا چلا جاتا ہے جس کے اندر انسان کے باطن کو شفاف اور معاشرے کو روشن بنانے کی قوت ہوتی ہے ۔ آج کی تازہ ترین صورتحال بھی سب کے سامنے ہے ۔ تعلیمی اداروں میں موجود ادب کے شعبوں کا کردار اور مدرسین کا متعصبانہ رویہ زہر کی طرح نوجوان نسل کے اذہان کو پراگندہ کر رہا ہے اور ادھر ہا ہو ہا ہو مشاعرے اور شاعری کے نام پر سستے منظوم مواد کی تروج اور سوشل میڈیا کا انفلوٸنس اگر کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تو سواۓ ماتم کے اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔ صرف ایک سوال کا جواب چاہٸیے یہ جو آۓ دن لٹریری فیسٹیولز ہوتے ہیں اور اردو کانفرنسوں پر کروڑوں روپٸے خرچ کیے جاتے ہیں کیا یہ کبھی کسی شکیب جلالی ، منیر نیازی ، احمد فراز ، سلیم کوثر ، غلام محمد قاصر یا مقبول عامر کی شخصیت اور کلام پر سنجیدہ بات کرتے دکھاٸی دیے ہیں ؟ ۔ اس لیے کہ ان کے پیچھے ادب دشمن ایجنڈوں پر کام کرنے والے کارندے ، مصنوعی شاعر ادیب اور نالاٸق مفاد پرست مدرسین کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور یہی لوگ ہمیشہ دربار سرکار پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کے مالک بھی ہوتے ہیں ۔
مقبول عامر کی شاعری اور اس کی تخلیقی قد و قامت پر بات کرنے کے لیے یہ سارا پس منظر اور تناظر جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ مقبول عامر کا شمار ہمارے ان طاقتور شاعروں میں ہوتا ہے جن کے کلام میں خوشبو کی طرح پھیلنے کی طاقت اور موسموں کی طرح اثر انداز ہونے کی کرامت موجود ہوتی ہے ۔
اسی معجزے سے بات کا آغاز کرتے ہیں ۔ مقبول عامر کو کسی ریڈیو ، ٹی وی یا اخبار نے کبھی اتنی پذیراٸی نہیں دی جتنی امجد اسلام امجد اینڈ کمپنی کو ملی ۔ مقبول عامر کو کسی لسانی گروہ کی سرپرستی حاصل ہوٸی نہ کوٸی بڑی نوکری وجہ اثر و رسوخ بنی جس طرح افتخار عارف اینڈ کمپنی کو میسر آٸی ۔ مقبول عامر نہ کبھی کالجوں یونیورسٹیوں کے طلباء کے پاس حاضریاں بھرتے رہے نہ بیوروکریٹس کے چرنوں میں بیٹھے نہ ہی انہوں نے مشاعروں کے پروموٹرز کے ساتھ پبلک ریلیشننگ کرکے خود کو نمایاں کیا جس طرح چل استاد قسم کے لوگوں نے خود کو کیا ۔ لیکن اس کے باوجود آج ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت ِ دوم کا سامنے آنا اور ان کی وفات کے بیس باٸیس سال بعد ان کے اشعار زبان زد عام ہونا اور یہ جو ان کے کلام کا دلوں سے دلوں تک کا سفر جیسے ہوا کے دوش پر طے ہو رہا ہے تو کیا یہ معجزہ نہیں ۔
یقیناً یہ نہ تو کوٸی انہونی ہے اور نہ ہی کسی طرح سے اچنبھے کی بات ہے کیونکہ ہر اچھے شعر اور ہر خوبصورت نغمے کے اندر قدرت کی طرف سے یہ طاقت رکھ دی گٸی ہے کہ اسے خوشبو کی طرح پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا ۔ جس کی وجہ ان کے فطری اجزاٸے ترکیبی اور ان کا تناسب ہے ۔
اوریجنل شاعری دوسرے مظاہر ِ فطرت کی طرح قدرتی اجزاۓ ترکیبی اور ان کے تناسب سے تعمیر ہونے والا ایک زندہ مظہر ہے ۔ جس کی نقل بازاروں میں اسی طرح موجود ہے جیسے مصنوعی ، پھول ، پودے اور درخت وغیرہ ۔ لیکن جو خاصیتیں حقیقی درختوں پودوں اور پھولوں میں ہوتی ہیں مصنوعی درخت ، پودے اور پھول بظاہر جتنے بھی دیدہ زیب نظر آتے ہوں ان خواص سے محروم ہوتے ہیں ۔ شاعری کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے ۔ مقبول عامر کی شاعری کا بنیادی وصف جو بہت نمایاں بھی ہے وہ ملال ، افسردگی اور اداسی کا ہے ۔ کسی بھی تخلیق کار کی اداسی یا اداس تخلیق کار کی شخصیت عام انسانوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ اس کا یہ مختلف ہونا اس کے اندر جہاں ایک بیکراں احساس تنہاٸی کو جنم دیتا ہے وہاں معاشرے کی طرف سے مختلف ہونے کے ناکردہ گناہ کی پاداش میں ملنے والی سزاوں کی شکل میں تحفہ بھی قبول کرنا پڑتا ہے جو زندگی بھر اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں ۔ کلام دیکھٸیے ۔۔۔۔
فرد ِ جرم
فقیہہ ِ شہر بولا بادشہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب طرح کا مسافر تھا اپنا عامر بھی
اکیلا چلتا رہا کارواں کے ہوتے ہوے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مختلف ہونے کی وجوہات میں جانے کی بجاۓ اگر ہم مختلف ہونے کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں مقبول عامر جیسے شاعر کے کلام کا تجزیہ کریں تو پہلا احساس ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے مختصر ہونے اور موت کے اٹل المیے سے دوچار ہونے کی مجبوری سے پیدا ہونے والا احساس ِ بےماٸیگی و راٸیگانی اس کے تخلیقی عمل کے پیچھے سب سے زیادہ متحرک جذبے کے طور پر دکھاٸی دیتا ہے ۔
وہ فصل گُل کی طرح آ تو جاۓ گا لیکن
مجھے خزاں کی ہوا دور لے گٸی ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں یہ غم ہے نگار ِ وطن کہ ہم نہ رہے
تو جانے کون ترا قرض ِ غم اتارے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں جتنے انسان بھی سوال اُٹھانے کی اہلیت کے ساتھ پیدا ہوۓ ان کے مختلف ہونے کا آغاز اسی سے ہوگیا کہ زیادہ تر لوگ پیدا ہو کر معمول کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور مر جاتے ہیں لیکن کچھ چیدہ و چنیدہ لوگ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں ، غور کرتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور دوسروں سے مختلف ہوجاتے ہیں اور معمول کے لوگ انہیں اپنے جیسا نہ پا کے ان سے غیریت اور بیگانگی کا برتاٶ کرتے ہیں جو ان کے اندر تنہاٸی کا احساس پیدا کرتا ہے بلکہ اسے شدید سے شدید تر بناتا چلا جاتا ہے ۔ یقیناً معاشرہ انسانوں کو ان کے مختلف ہونے پر سزا دیتا ہے ۔
کب سے ویران جزیرے پہ کھڑا ہوں عامر
کوٸی موج آۓ مجھے ساتھ بہا لے جاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کس سمت اُڑ گٸے ہیں طیور
صبح خاموش ہے شجر چُپ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقی فطری تخلیق کار جتنا بھی دنیا کے ساتھ مطابقت بنا کے زندگی گزارے یعنی خارج کے ساتھ نارمیلیٹی کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کر لے وہ ایک متوازی زندگی اپنے باطن میں گزارتا ہے ۔ وہ اپنے اندر ایک مختلف شہر آباد کرتا ہے جس کے اپنے مناظر ، تصویریں ، وقت ، موسم ، حالات اور باسی ہوتے ہیں ۔ جو کیفیات ، احساسات ، جذبات ، خیالات اور نظریات کی تاروں کے زریعے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ، کہیں کوٸی مختلف خلا بناتے ہیں اور کہیں خود بخود بننے والے خلاٶں کو پُر کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس شہر کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، فسانے ، خبریں ، مکالمے ، خود کلامیاں ، بلکہ خاموشیاں بھی جب پوری معنویت اور جمالیات کے ساتھ لباس ِ سخن میں ظاہر ہوتی ہیں تو اپنے جیسے دلوں کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہیں ۔ مقبول عامر کی شعری کاٸنات کا جاٸزہ لیں تو یہ سارا منظر پوری وضاحت سے کھلتا ہے ۔
ھم اھل شب کے لئے صبح کا حوالہ ھے
دئیے کی آنکھ میں آنسو نہیں اجالا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
پل بھر وہ چشمِ تر سے مجھے دیکھتا رہا
پھر اس کے آنسوؤں سے مری آنکھ بھر گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
اپنا مسلک ہی نہیں زخم دکھاتے پھرنا
جانتا ہوں کہ تیرے پاس مسیحائی ہے
سانحہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید
شام روتی ہوئی جنگل کی طرف آئی ہے
صبح دم دل کے دریچوں پہ یہ ہلکی دستک
دیکھ تو باد ِصبا کس کی خبر لائی ہے
کچھ تو ہم مائل ِ گریہ تھے بڑی مدت سے
کچھ تری یاد بڑی دیر کے بعد آئی ہے
دور اڑتے ہیں فضاؤں میں پرندے عامر
میری کشتی کسی ساحل کے قریب آئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں مرگیا ہوں وفا کے محاذ پر عامر
پسِ شکست بھی میرا وقار باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی چنار یہی جھیل کا کنارا تھا
یہیں کسی نے مرے ساتھ دن گزارا تھا
نظر میں نقش ہے صبح سفر کی ویرانی
بس ایک میں تھا اور اک صبح کا ستارا تھا
مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا
خراج دیتا چلا آ رہا ہوں آج تلک
میں ایک روز زمانے سے جنگ ہارا تھا
مجھے خود اپنی نہیں اس کی فکر لاحق ہے
بچھڑنے والا بھی مجھ سا ہی بے سہارا تھا
زمیں کے کام اگر میری دسترس میں نہیں
تو پھر زمیں پہ مجھے کس لیے اتارا تھا
میں جل کے راکھ ہوا جس الاؤ میں عامرؔ
وہ ابتدا میں سلگتا ہوا شرارہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو خیر چند مثالیں ہیں ورنہ مقبول عامر کے ہاں بطور انسان اپنے اختیار اور مجبوری کا موضوع وضاحت سے کہیں کہیں اور بین السطور جگہ جگہ ملتا ہے ۔ اگرچہ وہ جان کیٹس کی طرح سلطنت ِ دل کی شہزادی کی محبت سے زندگی کی رومانویت کے معانی اخذ کرتا ہے اور موت کو سر پہ کھڑا دیکھنے کی افسردگی سے وقت کی بےوفاٸی اور دنیا کی بےثباتی پر نوحہ بھی بلند کرتا ہے لیکن کہیں بھی زندگی کی روشنی کو مایوسی کے ساٸیوں سے مجروح نہیں ہونے دیتا ۔ اس کی شاعری میں محبت ، زندگی ، موت اور معاشرہ اتنی طاقت سے دھڑکتے ہیں کہ اس کی شدت پڑھنے والے کو اپنے دل و دماغ کے اندر محسوس ہونے لگتی ہے ۔ حقیقی شاعر اور شاعری کا یہی معجزہ ہوتا ہے اور حقیقی شاعروں کی اسی طاقت کے خوف سے مصنوعی شاعر اور سرمایہ دارانہ نظام ان سے خوفزدہ رہتے ہیں اور ان کی موت کے بعد بھی ان کو مارنے پہ تُلے رہتے ہیں لیکن اس میں بھی کوٸی شک نہیں کہ یہ وقتی طور پر کامیاب ہو بھی جاٸیں تو زیادہ دیر تک نہیں رہتے ۔ وقت اور نظام قدرت خود اپنے فطری میکنزم کے تحت ان کے نقوش مٹا دیتا ہے اور حقیقی تخلیق کاروں کے نقوش اجاگر کردیتا ہے۔ مقبول عامر کی شاعری میں پاٸی جانے والی تنہاٸی ، خاموشی ، جداٸی ، انتظار ، ساحل ، دریا ، جنگل اور شام وسحر زندہ مظاہر کی طرح کاٸنات کی دل گرفتگی کا اظہار جس شدت سے کرتے ہیں اسے نظر انداز کیا جانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔ جس طرح جان کیٹس آج بھی زندہ و تابندہ ہے مقبول عامر بھی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا ۔

کوئی تبصرے نہیں
Hi