Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

مقبول عامر (دیئے کی آنکھ )اور فرحت عباس شاہ (شام کے بعد

  مقبول عامر (دیئے کی آنکھ )اور فرحت عباس شاہ (شام کے بعد )کا متوازی مطالعہ عصری تناظر میں :  تحریر : فیصل زمان چشتی  ( یہ مضمون حلقہ ارباب ...

 



مقبول عامر (دیئے کی آنکھ )اور فرحت عباس شاہ (شام کے بعد )کا متوازی مطالعہ عصری تناظر میں :


 تحریر : فیصل زمان چشتی 

( یہ مضمون حلقہ ارباب ذوق لاہور کے خصوصی اجلاس "مقبول عامر کی شاعری ایک مطالعہ " میں پڑھا گیا )


پل بھر وہ چشم_ تر سے مجھے دیکھتا رہا 

پھر اس کے آنسوؤں سے مری آنکھ بھر گئی 


دنیائے ادب میں ایسے بہت سے شاعر گذرے ہیں جن کو عمومی اعتبار سے دنیا میں رہنے کا وقت بہت کم ملا مگر انہوں نے تھوڑی مدت میں اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں ، سوچ و فکر کی رعنائیوں ، اور موضوعات کے تنوعات سے ایسا کچھ تخلیق کر دکھایا جو لوگ سات جنموں میں بھی  نہیں کر سکتے۔ مقبول عامر  اس تخلیقی ادبی خاندان اور قبیلے  کا حصہ ہے جس کو نظام قدرت ایسا تخلیقی جوہر ، فنی و فکری پختگی اور عصری شعور  اواٸل ِ عمری ہی میں بخش دیتا ہے جو عام طور پر طویل عمر پانے والے شعراء کو آخری دموں تک نصیب نہیں ہوتا ۔ بد قسمتی سے گروہ بندیوں اور مفاد پرستوں کی اجارہ داریوں کے باعث مقبول عامر کو آج سے پہلے تک وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے لیکن جس طرح خوشبو کو پابند سلاسل نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح مقبول عامر کی شاعری بھی زیادہ دیر حالات کے جبر کے ذریعے دباٸی نہ جا سکی۔ ان کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ "دیئے کی آنکھ " 1990 میں ان کی وفات سے تقریبا ایک سال قبل شائع ہوا  جس کا دوسرا ایڈیشن 2016 میں دوست احباب کی محبت ، تعاون و معاونت اور توجہ سے شائع کیا گیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مقبول عامر کی تخلیقی عظمت سے خوفزدہ کمزور شعراء کو شکست فاش دیکھنا پڑی ہے اور وہ مقبول عامر کی شاعری اور شاعرانہ عظمت کو چھپانے میں یکسر ناکام رہے ہیں ۔ 

 محبت ، اداسی ، سماجی رویے اور ملال مقبول عامر کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں بعض جگہوں پر وہ اپنی بے بسی کا کھلا اظہار بھی کرتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنی محبت کو مرنے نہیں دیا ۔ محبت ہمیشہ ان کے دل میں ٹمٹماتی اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ مقبول عامر منفرد لب و لہجے کا صاحب اسلوب شاعر ہے اور جس شاعر کو پورے ادبی منظر اور ادبی تاریخ میں انفرادیت حاصل ہوجاۓ اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ مفاد پرست غالب ادبی ٹولے اگر وقتی طور پر اس میں کامیاب ہو بھی جاٸیں پھر بھی ایک وقت آتا ہے جب مصنوعی طریقوں سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے گمنامی کی تاریک قبروں میں جا لیٹتے ہیں جبکہ جینوٸن تخلیق کاروں کے مزاروں پر میلہ چراغاں کا سماں بندھ جاتا ہے  ۔ مقبول عامر ، ان کا لب و لہجہ عام شعری رجحانات  سے اس لیے مختلف  ہے کہ ان کی واردات ِ قلبی  شدید اور طاقتور ہے کہ ان کے معروضی شعری مطالعے یا اکتساب پر موضوع غالب رہا ہے اور معروض اس طرح سے  اپنے اثرات مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا جس طرح وہ کمزور شاعروں پر کرتا ہے  ۔

 ہم سب کے مطالعے اور مشاہدے میں آۓ دن آتا رہتا ہے کہ بہت سے شعراء ہمیں مستعار لہجوں میں یا ایک جیسے انداز میں شاعری کرتے نظر آتے ہیں لیکن بڑا شاعر اپنی تخلیقی طاقت اور انفرادیت سے مختلف بھی ہوتا ہے اور توانا بھی ۔ مقبول عامر  اپنے دل کی بات کرتا ہے اپنے احساسات و جذبات کی بات کرتا ہے ۔ وہ اوریجنل ہے اور اس کی شاعری میں کہیں کسی تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے احساس اپنے جذبات اور اپنے خیال و فکر کو آزماتا ہے ۔ مقبول عامر  مستعار نظریات یا کسی کے خیال سے کام نہیں چلاتا نہ ہی کوئی فکری جگاڑ یا جگالی کی کوشش ان کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔ ہمیشہ اپنی قلبی واردات کو انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے بیان کرنے والا مقبول عامر ہر اس شاعر سے ممتاز و منفرد نظر آتا ہے جو محض عروضی و لسانی اکتساب اور پریکٹس کی بنیاد پر  مصرعے بنانے اور شعروں کی شکل والے منظوم چونکیے گھڑنے 

 کے بل بوتے پر شاعر ہونے کا دعویٰ داغ دیتے ہیں ۔ یہ منظوم چونکیے دیکھنے میں اصلی شعروں کی طرح مرصع ، مضبوط اور چونکانے والے لیکن حقیقی شعری تاثیر سے محروم ہونے کی وجہ سے دوسری تیسری قرأت پر ہی بےوقعت محسوس ہونا شروع کر دیتے ہیں ۔ یا مشاعروں کے قارٸین کو مسلسل سُن سُن کر یاد بھی ہوجاٸیں تو اگلے اشتہار کے آن اٸیر ہوتے ہی مٹی میں جا ملتے ہیں ۔ 

 مقبول عامر کی شاعری میں ہمیں ہر جگہ پر اپنی ذات کا کرب نمایاں  نظر آتا ہے اس کی وجہ ہے کہ مقبول اپنی شاعری میں احساس و جذبات کی ترجمانی اتنی قوت اور شدت سے کرتے ہیں کہ معاشرے میں ہونے والے حادثات اور معاملات بھی ان کی ذات کا حصہ نظر آتے ہیں۔  اگرچہ سماجی رویے اور معاشرتی مسائل بھی ان کے پیش نظر رہے اور وہ ان کی غزل کےاہم جزو بھی بنے لیکن یوں لگتا ہے جیسے سماج بیگانگی کا کرب اور آشوب ذات کسی ایک ہی چشمے سے پھوٹتے اور ایک ہی دریا کی طرح اس طرح بہتے ہیں کہ انہیں الگ الگ کرنا ممکن نہیں رہتا ۔

آج کا عہد اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ بڑے شاعروں کی بڑی تخلیقات پربات کی جائے ان کی سوچ و فکر کا پرچار کیا جائے۔ ان کے انداز ِ فکر و بیاں کی پیروی کی جائے تاکہ نوجوان نسل کو صحیح اور غلط کا ادراک ہوسکے اور وہ مصنوعی اور فیک ادب سے آگاہ بھی ہوجائیں اور گریز پا بھی۔  وہ ادب کی حقیقی تصویر دیکھ کر خالص سچے اور جینوئن تخلیق کاروں کی راہنمائی میں اپنا فنی و فکری سفر جاری رکھ سکیں جو معاشرے میں تعمیر کا باعث بنے ناکہ کسی ایسے منفی رویے کے پنپنے کی وجہ بنے جس کا خمیازہ معاشرے دہائیوں تک بھگتتے رہتے ہیں ۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے جس کے نتائج ابھی تک سامنے آرہے ہیں۔ 

مقبول عامر کی شاعری میں معصوم اور نازک جذبات کا بےساختہ اظہار ملتا ہے۔   وہ ظلم کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کررہے ہیں اور نشاندہی بھی کررہے ہیں۔ ان کی شاعری ایک پختہ کار شاعر کی شاعری ہے وہ ایک سنجیدہ اور بالغ نظر شاعر ہیں ان کے ہاں فنی سطح پر  اکتساب اور تربیت کا عمل صاف محسوس کیا جاسکتا ہے جو کٸی دفعہ اس عمر کے شاعروں کو نصیب نہیں ہوتا ۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی شعری پختگی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ان کے کچھ اشعار دیکھیے جن میں میری اوپر بیان کی ہوئی باتوں کی گواہی اور تصدیق ملتی ہے۔ 


یہی چنار یہی جھیل کا کنارہ تھا 

یہیں کسی نے مرے ساتھ دن گذارا تھا 


مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا 

وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا 


خراج دیتا چلا آرہا ہوں آج تلک 

میں ایک روز زمانے  سے جنگ ہارا تھا 


میں جل کے راکھ ہوا جس الاو میں عامر 

وہ ابتدا میں سلگتا ہوا شرارا تھا  


ایک جگہ پر تنہائی کو محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں۔


عجب طرح کا مسافر تھا اپنا عامر بھی 

اکیلا چلتا رہا کارواں کے ہوتے ہوئے  


وہ اپنے دکھ اور کرب دنیا سے چھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ


اپنا مسلک ہی نہیں زخم دکھاتے پھرنا 

جانتا ہوں کہ ترے پاس مسیحائی ہے 


جتنے بھی دکھ تھے مجھے سونپ دیئے ہیں عامر 

دینے والے کو مرے ظرف کا اندازہ تھا  


ان کے کچھ اور اشعار بھی دیکھیے۔۔


محبتوں کا سفر بھی عجیب تھا عامر 

کہ لوگ چلتے رہے راستے نڈھال ہوئے 


ہمیں پلٹنے میں ممکن ہے دیر ہوجائے 

کھلے دریچے میں جلتا ہوا دیا رکھیں 


سانحہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید 

شام روتی ہوئی جنگل کی طرف آئی ہے 


لہو دیا ہے تو پھوٹی ہیں کونپلیں عامر 

یہ روگ میں نے بڑی مشکلوں سے پالا ہے 


آج ہم مقبول عامر کی شاعری اور اس کے شعری رجحانات پر بات کررہے ہیں ، ایک ایسے شاعر کی شاعری کا ذکر ہورہا ہے جو احساسات اور کیفیات کا شاعر تھا لیکن ادبی مافیاز کے زیر اثر نہیں تھا اس لئے ادبی نوسربازوں نے مقبول عامر کو نظر انداز کرنے میں ہی عافیت جانی۔ لیکن یہ مقبول عامر کی شاعری کی خوشبو اور طاقت ہے جو دوبارہ مہک رہی ہے اور دیوار کے اس  پار بھی چہار دانگ عالم میں اس شاعری کے تذکرے ہورہے ہیں۔  آج ہم سب لاہور میں مقبول عامر کی وفات کے 33 سال بعد اور اس  کے گھر سے سینکڑوں کلومیٹر دور پاک و ہند کی قدیم ترین ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر اور ادیبوں کی آماجگاہ پاک ٹی ہاؤس لاہور میں بیٹھ کر اس کی شاعری کے محاسن بیان کر رہے ہیں ان کی شعری و فنی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں تو یہ مقبول عامر کی شعری ریاضت اور شاعری کی طاقت کا معجزہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جس دوسرے عظیم شاعر کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ عہد_ موجود کے ممتاز ، مقبول ترین اور  محبوب شاعر جناب فرحت عباس شاہ ہیں ۔  میں فرحت عباس شاہ  کی پہلی کتاب" شام کے بعد" اور ” دیے کی آنکھ “ کے درمیان  چند مماثلتیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔ اگرچہ میرے لیے اتنے کم وقت میں  ممکن نہیں کہ میں ان منفرد اور طاقتور شعراء مقبول عامر اور  فرحت عباس شاہ کا مکمل یا بھرپور متوازی مطالعہ پیش کرپاوں مگر چند سطور اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں ان کو مقدور بھر خراج تحسین پیش کرسکوں۔  دونوں شعراء میں دکھ اور کرب کی کیفیات مماثلت رکھتی ہیں۔  غم ان کی مشترکہ میراث نظر آتا ہے جیسا کہ فرحت عباس شاہ کی بےمثال اور لازوال پہلی کتاب " شام کے بعد " 1989 میں منصہء شہود پر آئی اسی طرح مقبول عامر کی پہلی اور آخری کتاب " دئیے کی آنکھ " 1990 میں شائع ہوئی۔  دونوں تخلیقات میں شعراء اپنے فنی و فکری محاذوں پر سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ فرحت عباس شاہ اور مقبول عامر اعلٰی انسانی اقدار کے حامل شاعر اور شخصیات ہیں۔ جذبات و احساسات اور کیفیات کا بیان ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔" شام کے بعد " اور" دیئے کی آنکھ " اردو شاعری کا دل ہیں۔ شام کے بعد میں فرحت عباس شاہ کی اسی  کی دہائی کے اوائل کی وہ شاعری شامل ہے جب وہ کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس کتاب میں ایک ایسے نوجوان کی شاعری ہے جس نے اپنے خیالات سے اور موضوعات کے تنوعات سے پوری دنیا کو حیران کر دیا ایک ایسا نوجوان جس کی شاعری میں جابجا دکھ، درد ،کرب اور اداسی کا رنگ غالب ہے اور اس کی شاعری میں چاروں طرف غم و اندوہ کے چراغ جلتے نظر آتے ہیں۔  فرحت عباس شاہ نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی صاحب درد اگر اپنے غم اور دکھ کو طاقت بنا لے تو اس کا شمار کمزور لوگوں میں نہیں کیا جاسکتا ۔  مزاحمت فرحت عباس شاہ کی گھٹی میں پڑی تھی اس لیے ان کی پہلی کتاب میں بھی وہ رنگ نظر آتا ہے اور مزاحمت کے نمائندہ اشعار ان کی پہلی کتاب میں نمایاں ہیں۔ ” شام کے بعد ” میں شامل ان کی ایک غزل جس کا ردیف" آسماں زرد ہے" اس ضمن میں بہترین مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے ۔  اس عمر میں ایسا عصری اور مزاحمتی شعور قدرت کی طرف سے انعام ہی کہا جا سکتا ہے ۔  اس کتاب ” شام کے بعد “   میں فرحت عباس شاہ کی اٹھان نے یہ بھی بتادیا کہ ان کی اڑان کیسی ہوگی۔ اور پھر چشم فلک نے ان کی اڑان کو بھی دیکھا۔  فرحت عباس شاہ آمد کے شاعر ہیں۔ شاعری ان پر نازل ہوتی ہے۔ ان کے پہلے شعری مجموعے شام کے بعد نے اردو شعر و ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ جس کو ایک زمانے تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ فرحت عباس شاہ مقبول عامر کی طرح ایک فطری شاعر ہیں ان کی پہلی کتاب میں ان کی وہ شاعری ہے جو انہوں نے جھنگ میں بیٹھ کر لکھی ایک ایسے طالب علم کی شاعری ہے جس نے اپنا فکری ارتقائی سفر انتہائی سرعت اور کامیابی سے طے کیا جس کو یہ بھی ادراک تھا کہ وہ اس منزل کی جانب محو سفر ہے جس میں سفر ہی منزل ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے تلاش کو ہی منزل گردانا۔ اسی لیے آج تک اس کا سفر مکمل نہیں ہوا اور وہ مسلسل منزل کی تلاش میں ہے۔ یہ وہ فکری اور نظریاتی اساس تھی جس نے فرحت عباس شاہ کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور وہ ارتقائی منازل طے کرتے رہے ۔ شام کے بعد کی شاعری میں ایک ایسے شاعر کا عکس نظر آتا ہے جو دکھ اور اداسی کے شہر کا مکین ہے یہ شاعری اس کے دل کی آواز ہے یہ اس کی بپتا ہے اس نے جو کچھ محسوس کیا اس کو من و عن قرطاس پر سجا کے پیش کردیا۔ میرے خیال میں بڑی اور پر تاثیر شاعری وہی ہوتی ہے جو دل کے نہاں خانوں سے نکلے۔ فرحت عباس شاہ اداسی کے خمار سے ہمیشہ ایسی شاعری  کشید کرتا ہے جو سیدھی دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی شاعری کا یہ معجزہ ہے کہ وہ قاری کا مزاج بدلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور یہ کام ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کی ذات میں لاشعور کی قوت کا  اظہار بھی بہت مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ شام کے بعد میں فرحت عباس شاہ بالکل منفرد انداز میں اپنے رنگ اور اپنی موج میں شعر کہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ مجموعہ ایک لازوال کتاب بن کر سامنے آیا۔ 

ان کے اشعار کا اپنا اسلوب اور اپنا رنگ و آہنگ ہے ایک خاص فضا ہے،  کیفیات کا وہ جہان ہے جس میں وہ اپنے ساتھ قاری کو بھی لئےپھرتا  ہے یہی وجہ ہے کہ 35 سال گزرنے کے باوجود اس کتاب کا سحر اسی طرح دائم و قائم ہے ۔  انکی کتاب شام کے بعد میں سے چند اشعار دیکھیے۔۔


لاکھ دوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا  

جب بھی بارش ہو مرا سوگ مناتے رہنا 


تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری 

بس کنارے پہ یونہی ہاتھ ہلاتے رہنا  


اداس شامیں اجاڑ رستے  کبھی بلایئں تو لوٹ آنا

کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ  آنا 

مری وہ باتیں تو جن پہ بےاختیار ہنستا تھا کھلکھلا کے 

بچھڑنے والے مری وہ باتیں کبھی رلائیں تو لوٹ آنا 


ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر آسماں زرد ہے

سبز موسم میں پیلے شجر دیکھ کر آسماں زرد ہے


آج خوشیاں منانے کا دن ہے اور حاکم کا فرمان ہے

ہم یہ خوشیاں منا بھی رہے ہیں مگر آسماں زرد ہے 


موسم تھا بےقرار تمہیں سوچتے رہے 

کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہے  


بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم 

چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے   


رکا ہوا ہے عجب دھوپ چھاؤں کا موسم 

گزر رہا ہے کوئی دل سے بادلوں کی طرح 


گھر جانے سے اتنے خوفزدہ ہیں لوگ 

رات گئے تک بازاروں میں پھرتے ہیں   


کئی زمانے، میں اپنی کڑی شکست کے بعد

 خود اپنے ٹوٹے ہوئے بازووں میں قید رہا 


وہ ایک چہرہ جو آنکھوں میں آبسا تھا کبھی 

تمام عمر مرے آنسوؤں میں قید رہا   


 آزادی کے دن سب نے تعزیروں سے 

خوفزدہ ہو کر بازار سجاۓ ہیں 

 

 تمہارا پیار مرے چار سو ابھی تک ہے 

کوٸی حصار مرے چارسو ابھی تک ہے


میں اب بھی گرتے ہوٸے پانیوں کی زد میں ہوں 

 اک آبشار مرے چارسو ابھی تک ہے 


 

اور پھر  وہ لازوال غزل جس نے اردو شعر و ادب کا منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔۔


تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد 

کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد 


اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لاعلم 

چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد 


شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا

جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد 


تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ 

تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد 


لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج 

کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد 


مقبول عامر اور فرحت عباس شاہ اگرچہ ملک کے دور دراز کے علاقوں میں اور ایک دوسرے سے الگ گلی کوچوں میں بیٹھ کر خون دل سے 

شاعری کشید کر رہے تھے لیکن ملک پر مسلط مارشل لاء نے پورے معاشرے کو فکری سماجی  سیاسی طور پر جس جبر ، جھوٹ اور فریب کا شکار کر رکھا تھا کیسے ممکن تھا کہ اتنے حساس اور تخلیقی اخلاص اور اظہار کی معصومیت سے بھرے ہوۓ یہ دونوں  شاعر اسے محسوس کیے بغیر گزر جاتے ۔ سماجی اور سیاسی گھٹن ان کو ایک ایسی اجتماعی اداسی کے آسیب کے طور پر جکڑے ہوۓ تھی کہ ان کے پاس خارج کی مایوسی کو دل پر جھیلنے اور آہوں اور سسکیوں کی شکل میں اس کا اظہار کرنے کے سوا کوٸی چارہ ہی نہیں تھا ۔ زندگی اور موت کا وقت معین ہے اور یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن موت کے احساس کی فضا جتنی ان دونوں کتابوں میں محسوس ہوتی ہے وہ اردو غزل میں ان دونوں کے علاوہ صرف شکیب جلالی کے ہاں ملتی ہے ۔ 

فرحت عباس شاہ اور مقبول عامر کے ہم عصر شعراء یا جنہیں ہم اسی کی دہاٸی کے شعراء کہہ سکتے ہیں کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے ایک بات بہت واضح نظر آتی ہے کہ جو شعری گداز اور شعری اثر یا تاثیر یا دل کو گرفت میں لینے والی قوت ان دو شعراء کے ہاں نظر آتی ہے وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوٸی ۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ رنج و الم اور کرب و اذیت کے اظہار کا یہ معجزہ میر تقی میر کے بعد سیدھا فرحت عباس شاہ اور مقبول عامر کے حصے میں آیا ہے ۔ اسی کی دہاٸی کے ایک اور شاعر کا ذکر کرنا بھی یہاں ضروری سمجھتا ہوں اور وہ ہے 

مبارک شاہ ۔ مبارک شاہ بھی ایسے ہی جینوٸن ، توانا اور منفرد اسلوب کے شاعر ہیں جیسے کہ فرحت عباس شاہ اور مقبول عامر ۔ امید ہے اسلام آباد اور واہ کینٹ کا کوٸی نہ کوٸی با ضمیر اور انصاف پسند محقق وہ نام ضرور سامنے لاٸے گا جو مبارک شاہ کے بڑے عہدوں پر تعیناتی تک دن رات اس کے آگے پیچھے پھرتے تھے اور جیسے ہی وہ ریٹاٸر ہوئے ان سے سلام تک لینے سے گٸے اور آج مقبول عامر کی طرح ان کو بھی نظر انداز کرنے پہ تلے ہوٸے ہیں۔  ادبی عہدوں پر ، مشاعروں میں  اور لٹریری فیسٹیولز کی پہلی نشستوں پر مستقل براجمان نظر آنے والوں میں ان کو نام لے کر صاف پہچانا اور مخاطب کیا جاسکتا ہے ۔ یہ مصنوعی شاعر ، نقاد ، بد دیانت محقیقین فرحت عباس شاہ کے ساتھ بھی یہی کچھ کرچکے ہیں جس کی مثال میں اورٸینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی اور گورنمینٹ کالج  کے شعبہ ہاۓ اردو جیسے اداروں میں فرحت عباس شاہ کے پینتیس سالہ مسلسل تخلیقی عہد اور پچاس سے زاٸد شعری مجموعوں کی تخلیق کے باوجود ایک بھی تحقیقی مقالے کا نہ لکھا جانا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود فرحت عباس شاہ کا تخلیقی و علمی جادو ہمیشہ ان کے سروں پر چڑھ کے بولتا رہا ہے جس کی وجہ  سے فرحت عباس شاہ کی شاعری کا عام و خاص کے دلوں پر نقش ہونا ،تخلیقی عمل سے مسلسل جڑے رہنا ہے  اور  ان سفاک ادبی مجرموں کو ایکسپوز کرتے رہنا ہے۔  فرحت عباس شاہ اور مقبول عامر آج ان تمام مصنوعی شعراءادباء اور بے رحم مفاد پرست ادبی ٹھیکیداروں کو پچھاڑ کر آگے نکل گٸے ہیں ۔ آج اس بات کا اعلان کرنا بھی بنتا ہے کہ جینوٸن شعراء کی نشاط ِ ثانیہ کے دور کا آغاز بھی فرحت عباس شاہ کے ادراکی تنقیدی دبستان سے ہوتا دکھاٸی دے رہا ہے۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ