Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے شاعر : راحت اندوری

  ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے  جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے  اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے  عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جات...

 

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے  جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے   اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے  عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے   اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے  جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے   رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ  ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے   میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا  تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے   مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید  لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے   ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے  کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے  شاعر  :  راحت اندوری انتخاب : ثناء مرتضٰی

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے 

جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے 


اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے 

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے 


اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے 

جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے 


رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ 

ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے 


میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا 

تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے 


مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید 

لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے 


ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے 

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے


شاعر : راحت اندوری


کوئی تبصرے نہیں

Hi