Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

مومنؔ غازی پوری

  آج - 24؍اکتوبر 1933 سرزمین غازی پور سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ”‎#مومنؔ_غازی_پوری صاحب“ کا یومِ ولادت ہے نام محمد_صغیر_صدیقی اور تخلص م...

 


آج - 24؍اکتوبر 1933

سرزمین غازی پور سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ”‎#مومنؔ_غازی_پوری صاحب“ کا یومِ ولادت ہے

نام محمد_صغیر_صدیقی اور تخلص مومنؔ ہے۔

24؍اکتوبر 1933ء کو غازی پور، اترپردیش کے محلہ نخاس میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چشمۂ رحمت اورینٹل کالج غازی پور میں درجہ پنجم تک حاصل کی۔ اور جے۔ پی مہتا انٹر کالج بنارس سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ اس کے بعد محکمہ ریل میں ملازمت اختیار کی آپ ڈویزنل کمرشیل انسپیکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے شعر گوئی کی ابتدا ہوئی۔ مومنؔ غازی پوری کے استاد حضرتِ علی احمد صاحب کلیمؔ غازی پوری تھے۔ استاد کی نگرانی میں ان کی شاعری پروان چڑھی۔ مومنؔ صاحب ایک سنجیدہ، خوش فکر، خوش گو، صاحب احساس اور صاحب دل شاعر تھے۔ ان کا ترنم بھی بڑا متین اور دلکش تھا۔ آواز میں بڑی نرمی تھی لیکن ایک اچھے فنکار سے بھی پہلے اور اس سے بھی زیادہ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ 1990ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ان کے عہد میں سب سے سرگرم ادبی جماعت ”ہندوستانی برادری“ کے نام سے مشہور تھی۔ جس کے بانی و صدر ڈاکٹر سمپورنانند کے بھائی پری پورنانند ورما صاحب تھے۔ مومنؔ صاحب ”ہندوستانی برادری“ بنارس برانچ کے جنرل سیکریٹری تھے۔ جس میں اکثر شعری و ادبی نشستیں ہوا کرتی تھی۔ عمر آخر تک آپ بزم مذکورہ کے جنرل سیکریٹری رہے۔

15؍ستمبر 1995ء کو بنارس میں طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

مومنؔ غازی پوری صاحب کی وفات کے بعد انکی اہلیہ و بیٹوں کی کوششوں اور مشہور و معروف ہردلعزیز شاعر حضرتِ طربؔ_صدیقی صاحب کی ترتيب و تزئین سے ایک شعری مجموعہ عکسِ سخن 2015ء میں شائع ہوا۔

👈 ‎#بحوالہ_عکسِ_سخن


🍁 معروف شاعر مومنؔ غازی پوری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت... 🍁


تقریر مسلسل تھا کبھی طول بیاں تھا

دو لفظوں میں اب قبر کے پتھر پہ لکھا ہوں

----------

اب ماہرِ تاریخ مجھے ڈھونڈھ نکالیں

اک عہد کی تہذیب ہوں مٹی میں دبا ہوں

----------

بہت ہی سادہ میرے دل کی داستان تھی مگر

غم حیات نے دے دی ہیں سرخیاں کیا کیا

----------

اس قدر لطف و عنایت خلاف امید

اے میرے دوست مرے ساتھ یہ دھوکا تو نھیں

----------

اٹھائے ہیں بہت صیاد کے ظلم و ستم لیکن

قفس چھوڑا نہ کچھ احسانِ بال و پر لیا ہم نے 

----------

گری ہے برق تپاں کتنی احتیاط کے ساتھ

کے شہر بھر میں جلا ہے ہمارا گھر تنہا

----------

ایسا بھی انقلاب زمانے میں آئے گا

آنسو ہنسیں گے پھوٹ کے روئیں گے قہقہے

----------

کن خیالات میں کہاں گم ہو

کیا وہاں میں نہیں جہاں تم ہو

----------

جب وہ مجھ سے کبھی با دیدۂ تر ملتے ہیں

اپنے آنسو مری آنکھوں میں سمو جاتے ہیں

----------

کل صبح کی کرن بن کے بکھر جاؤں گا ہر سو

میں مصلحتاً شام کے آنچل میں چھپا ہوں

----------

دھلے دھلے مرے اوراق عہد رفتہ پر

مٹی مٹی کوئی تحریر سی لگے ہے مجھے

----------

زمانے سے مری کوئی خوشی دیکھی نہیں جاتی

 جو اشک آلود ہے وہ بھی ہنسی دیکھی نہیں جاتی

----------

اربابِ سیاست کی ہر اک بات ہی مومنؔ

بالخیر بہت کم ہے شر انگیز بہت ہے


💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠 


          مومنؔ غازی پوری

کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ