Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

26 نومبر سے پہلے عمران خان، حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی ڈیل کی مکمل کہانی۔۔ شیر افضل مروت کی زبانی:

  تین نومبر کو مزاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، چار رکنی کمیٹی تھی، علی امین گنڈاپور، بیرسٹر گوہر، محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ شامل تھے، بعد ...

 




تین نومبر کو مزاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، چار رکنی کمیٹی تھی، علی امین گنڈاپور، بیرسٹر گوہر، محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ شامل تھے، بعد میں ایک موقع پر میں بھی شامل ہو گیا۔۔ حکومت اسٹبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کچھ چیزیں طے ہو گئیں جس میں عمران خان کی رہائی بھی شامل تھی۔ وزیرداخلہ نے اپنا جہاز بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کو دیا، وہ اٹک گئے تاکہ معاملات آگے بتائے جا سکیں۔ 25 نومبر کو بیرسٹر گوہر کو جیل بھیجا گیا جہاں عمران خان نے ویڈیو رکارڈ کروانا تھی، ویڈیو میں عمران خان نے یہ کہنا تھا کہ ورکر میری رہائی ہونے تک سنگجانی پر ٹھہر جائے، سب سیٹل تھا، یہاں تک کہ عمران خان سے ڈسکشن ہوئی کہ ویڈیو جیل کی سلاخوں کے باہر سے بنائی جائے یا پھر ان کی جیل کے اندر بنائی جائے۔ بیرسٹر گوہر سے ویڈیو بنانے کے لیے موبائل مانگا گیا تو انہوں نے کہا موبائل جیل میں نہیں لایا اجازت نہیں ہے، جیل کے ایک اہلکار نے کہا یہ میرا موبائل ہے اس پر ویڈیو بنالیں، عمران خان نے کہا مجھے ان پر شک ہے کہیں یہ میری ویڈیو ٹیمپر نا کر دیں۔ فیصلہ ہوا کہ بیرسٹر گوہر صبح موبائل لائیں گے اور پیغام رکارڈ ہو گا۔۔ اور پھر اسی رات کو رینجرز والا واقعہ ہو گیا۔
ریاست کے اس وقت تک کوئی عزائم نہیں تھے جب تک کہ رینجرز کا واقعہ نہیں ہو گیا، ریاست کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتی تھی، اس لیے ہر قسم کے کمپرومائز پر آ چکی تھی۔ مگر واقعے کے بعد سب ختم ہو گیا۔ یہ ڈیل تھی اس کے تحت صبح عمران خان کی رہائی ہونی تھی۔



کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ