Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

انگریز اور خوانین عیسٰی خیل کے تعلقات

  انگریز اور خوانین عیسٰی خیل کے تعلقات...  پاکستان میں عموماً جبکہ پنجاب میں خصوصاً یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ ہر جاگیردار یا وڈیرے جو قیام پ...

 


انگریز اور خوانین عیسٰی خیل کے تعلقات... 


پاکستان میں عموماً جبکہ پنجاب میں خصوصاً یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ ہر جاگیردار یا وڈیرے جو قیام پاکستان سے پہلے کے اپنے اپنے علاقے میں سیاسی و سماجی طور پر بااثر ہیں. انھیں ایک مخصوص طبقہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انہیں اٹھارہ سو ستاون میں پیش آئے واقعات کے تناظر میں انگریزوں کا وفادار اور مسلم دشمن سمجھتا ہے..

ان لوگوں کے خیال میں ان جاگیرداروں کو جاگیردار انھی انگریزوں سے وفاداری اور مسلمانوں سے غداری نبھانے کے سبب دیں..

شاید اس بات میں کسی حد تک حقیقت ہو لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں ہے. کیونکہ بہت سے ایسے خاندان بھی ہیں جو انگریزوں کی آمد کے صدیوں پہلے سے معتبر و بااثر چلے آتے ہیں.. 

مگر اس طبقہ کے پڑھے لکھے اور پرچارک دراصل فکری بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں. جس کی وضاحت آگے چل کر کریں گے. انھی لوگوں کے پراپیگنڈا سے عام لوگ جو محض سطحی معلومات رکھتے ہیں وہ گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں..

سب سے پہلی بات ہے جیسے موجودہ جدید زمانے میں آجکل کمشنر، جرنل، جج، ایس پی، وکیل، ڈاکٹر،سرمایہ دار، ٹھیکیدار اپنی پی آر سے قانون کی بالادستی کو پامال کرتا ہے اور نام ریاست کا استعمال ہوتا ہے.

ایسے طاقتور لوگوں کو ریاست بذات خود تحفظ دیتی ہے کیونکہ ریاست کے مفادات اس میں مضمر ہوتے ہیں.

بلکل اسی طرح پرانے زمانے میں مغلوں کے عہد تک جاگیردار ہی دراصل کمشنر، جج، ایس پی، وکیل اور ٹھیکیدار ہوتا تھا.

جیسے آج کی حکومتیں عہدوں پر اپنے وفادار نمک خوار بٹھاتی ہیں ویسے ہی ماضی میں بھی یہ ہوتا تھا.

تبھی مغلوں کے زمانے تک انھی کو جاگیردار بنایا جاتا تھا جو بادشاہ سے وفادار ہوتے تھے..

جب مغلوں کا زمانہ ختم ہوا تو پنجاب میں سکھوں کا زمانہ شروع ہوا. سکھوں نے مغل یا درانی حکومتوں کے وفادار لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنایا..

اگر ہم اپنے علاقوں کی بات کریں تو یہاں ملتان پر سدوزئی پٹھان حکمران تھے، بہاولپور میں عباسی حکمران تھے، منکیرہ و ڈیرہ پربھی سدوزئیوں کے ایک اور خاندان کی حکومت تھی، کرک و کوہاٹ میں ٹیری و اکوڑہ کے خٹک حکمران تھے خوشاب پر بلوچ و ٹوانہ خاندان حکمران تھے، جھنگ پر سیال حکومت کرتے تھے. 

اسی طرح عیسٰی خیل پر خوانین عیسٰی خیل کی حکومت تھی.. 

سکھوں نے ان سب خاندانوں کو نشانہ بنایا اور انکے اپنے ہم مذہب ہم قوم مخالفین کو طاقتور کیا.. کیونکہ یہ سکھوں کی حکومت کے مخالف تھے. سکھ حکومت نے اپنے اپنے وفادار تلاش کرکے انھیں جاگیرداری دینے کی بھرپور کوشش کی.. 

یہ سب کچھ ہر متعلقہ علاقے کی تاریخ میں تسلسل کے ساتھ موجود ہے.. 

بہر حال ہم اب موضوع کو سمیٹ کر خوانین عیسٰی خیل پر آتے ہیں.. 

جیسا کہ گزشتہ اقساط میں خوب وضاحت ہوچکی ہے کہ عیسٰی خیل کی جاگیرداری یا حکومت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے پہلے خانی مموں خیلوں کے پاس تھی پھر ابدالی کے زمانے میں یہ زکو خیلوں کے پاس آئی جو کہ موجودہ زمانے میں خوانین عیسٰی خیل کہلاتے ہیں اور سکھوں کے عہد میں کس قدر خوانین عیسٰی خیل کو سکھوں سے مخالفت کے سبب صعوبتیں و مشکلات برداشت کرنا پڑیں.. 

یہ سب کچھ گزشتہ اقساط میں گزر چکا ہے. 

گزشتہ قسط میں یہ بھی بیان کیا کہ کیسے انگریزوں نے سکھوں کی ناچاقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب پر قبضہ کیا. 

ساتھ یہ بھی خوب وضاحت کی کہ کیسے انگریزوں نے خفیہ طور پر سکھوں کے ہاتھوں تخت مشق بنے لوگوں کو تلاش کرتے ہوئے ان کی دلجوئی کی اور انکی تکالیف میں کمی کرنے کی کوشش کی.. 

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے جو انگریز عیسٰی خیل کے خوانین کے پاس آیا وہ مسٹر الفنستون تھا جو کابل کی طرف جارہا تھا. یہ 1809ء کی بات ہے. اس کے الیگزینڈر برنس بھی یہاں سے گزرا اور خوانین عیسٰی خیل کی مہمان نوازی کی خوب تعریف کی... 

مسٹر ایڈورڈ نے خوانین عیسٰی خیل کو انکی جاگیریں واپس دلوائیں جو سکھوں نے چھین لیں تھیں.. 

جس کے سب غیرت و اخلاقیات کا تقاضہ یہی تھا کہ جب انگریزوں پر مشکل وقت آئے گا تو عیسٰی خیلوں بھی اس احسان کا بدلہ ضرور چکائیں گے. یہ خوانین عیسٰی خیل پر ہر صورت لازم آتا تھا کہ وہ انگریزوں کی مدد کرتے جب انھیں درکار ہوتی.. 

پس اسی سلسلے میں جب بنوں اور ملتان میں سکھوں نے بغاوت کی تو مسٹر ایڈورڈ نے خوانین سے اعانت طلب کی جس کے جواب میں رئیس عیسٰی خیل محمد خان نیازی نے اپنے محسنوں کے احسان لوٹانے کیلئے بھرپور مدد کی اور اپنے صاحبزادگان کو دونوں محاذوں پر بھیجا.. بنوں میں جہاں انکے ایک صاحب زادہ سردار عالم خان نیازی کو سکھ یرغمال بنا کر ساتھ لے گئے تو وہیں ایک اور صاحبزادہ سردار شاہنواز خان نیازی ملتان میں سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان سے گیا.. 

سرداری یا حکومت ایسے نہیں چلا کرتی اس کیلئے تن من دھن کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں.. 

یوں اس طرح خوانین عیسٰی خیل نے انگریزوں کے احسانات کا بدلہ سود سمیت چکا دیا... 

بدقسمتی سے مخصوص طبقہ درج بالا حقائق پر چشم پوشی کرتا ہے. اگر وہ انصاف کے ترازو میں توازن قائم کرے تو اس کو یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے فلاں انگریز کے وفادار. تو بھائی کیا آپ سکھوں کے وفادار تھے؟ کیونکہ انگریز اور سکھ تو دشمن تھے.. 

اب بات آتی ہے اٹھارہ سو ستاون میں پیش آئے و واقعات کی.. 

تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ بغاوت یا جنگ آزادی جو بھی تھی اس کا دائرہ کار پورے ہندوستان کی بجائے فقط بہار یوپی تک محدود تھا. بنگال، پنجاب، مالوہ جھاڑ کھنڈ، راجستھان، گجرات، کیرالہ، سندھ بلوچستان کہیں پر بھی ایسا کوئی واقعات پیش نہیں آئے.. 

دوسرا بہار و یوپی میں ہونے والی یہ بغاوت فقط مسلمانوں کی نہیں تھی بلکہ ہندو بھی برابر کے شریک تھے.. 

دوسری بات بالفرض یہ بغاوت یا جنگ آزادی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی زیر صدارت مسلمان حکومت کی بحالی کیلئے تھی. تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے.. کیونکہ پہلی بات مغلوں کی حکومت برائے نام تھی سارے عہدے ہندوؤں کے پاس تھے. اور ہندو بھی اس بغاوت میں مسلسل شریک تھے. ہندو کیونکر کسی مسلمان سلطنت کی بحالی کیلئے جنگ لڑیں گے. یہ احمقانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں... بالفرض اگر مان لیا جائے کہ یہ مسلمانوں کی جنگ تھی اور نام نہاد مسلمان بادشاہ کی بحالی کیلئے لڑی جارہی تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے. بہادر شاہ ظفر کو کس نے کہا تھا کہ وہ انگریزوں کے ہاتھوں میں زمام اقتدار دے اور بدلے میں عیاشیوں کیلئے انگریزوں سے وظائف بٹورے....

دوسرا یہ بھی پوچھنا بنتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر یا یوپی و بہار کے لوگ اس وقت کہاں تھے جب پنجاب کے مسلمان سکھوں کے لوٹ مار کرنے والے جتھوں کے رحم و کرم پر تھے... بہادر شاہ ظفر نے کونسا لشکر پنجاب کی آزادی کیلئے ترتیب دیا تھا؟ 

اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو یہ ثابت ہوا کہ یہ یوپی و بہار کے مسلمانوں کے پراپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں.. 

سرسید احمد خان جس کے نام سے کونسا پاکستانی واقف نہیں ہوگا.. جس کو دو قومی نظریہ کا بانی کہا جاتا ہے جس کو پاکستان کے صف اول کے ہیروز میں شمار کیا جاتا ہے.. وہی سرسید لکھتا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون میں ہوئے واقعات جنگ آزادی نہیں تھے بلکہ غداری تھے. جی ہاں بلکل بابائے پاکستان کے مطابق جن جن لوگوں نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ غدار تھے.. پس جو جو انگریز کے رفیق و مددگار تھے وہ اصل میں ملک و ملت کے وفادار تھے... 

چونکہ مغلوں نے خوانین عیسٰی خیل کی مشکل وقت میں کوئی اعانت نہ کی تھی، بلکہ وہ انگریز تھے جنھوں نے مشکل وقت میں عیسٰی خیلوں کا ساتھ دیا. پس اخلاقی تقاضوں اور بابائے پاکستان سرسید احمد خان کے ارشادات کے عین مطابق اب یہ عیسٰی خیل کے خوانین پر فرض تھا کہ وہ اپنے محسنین اور دوستوں کی مشکل وقت میں مدد کرتے ہوئے ریاست کے باغیوں کے خلاف اپنا کردار کرتے جو کہ انھوں نے کیا.. 

چونکہ انھوں نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لڑائیں لڑیں تو ان گرانقدر خدمت کے عوض اس وقت کی ریاست انگلشیہ نے انھیں مزید مراتب اور جاگیروں سے نوازا.. 

جیسے آج ہماری فوج اپنے فوجیوں میں اراضی تقسیم کرتی ہے.. 

بالفرض خوانین یا دیگر پنجاب کے مسلم معتبران انگریز کی مدد نہ کرتے اور انگریزوں کو شکست ہوجاتی تو یہ بات یقینی تھی کہ اقتدار پر دوبارہ وہی ہندو اور سکھ قابض ہوجاتے. تو ان سکھوں اور ہندوؤں سے تو کم از کم انگریز لاکھ درجہ بہتر تھے. یہ بقا کی جنگ تھی... 

یہی عیسٰی خیل کے خوانین تھے جب جنگ عظیم اول میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ کیلئے معاونت طلب کی گئی خوانین عیسٰی خیل نے انگریزوں کو اس بارے میں تعاون ادا کرنے سے معذرت کر لی. کیونکہ خوانین سمجھتے تھے کہ یہ جنگ مسلمانوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے. وہ الگ بات ہے کہ میانوالی کے ایک اور جاگیردار خاندان نے انگریزوں کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنے کیلئے دل کھول کر اس جنگ میں انگریزوں کی مدد کی. 

خوانین عیسٰی خیل کا یہ رویہ انگریزوں کو پسند نہ آیا. 

لیکن جنگ عظیم دوم میں دوبارہ انگریزوں نے خوانین عیسٰی خیل سے اعانت طلب کی تو خوانین نے تعاون کیا. کیونکہ اب سامنے مسلمان نہیں تھے. پس 

اگر ہم واقعی انگریزوں یا انکے وفاداروں سے نفرت کرتے ہیں تو پہلے حکومت پاکستان کے مختلف دفاتر میں بنی انگریزوں کی یادگاروں کو ختم کرنا ہوگا جن پر بجا طور پر ہمارے ادارے فخر کرتے ہیں.. 

ساتھ ہی ساتھ سرسید احمد خان کو بھی ہیروز کی لسٹ سے نکالنا ہوگا کیونکہ سب بڑا مسلمان دشمن اور انگریز نواز تو یہ سرسید احمد خان تھا.. 


کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ