فرانس کی تاریخ میں 17ویں صدی ایک ایسا دور تھا جب یورپی طاقتیں نئی دنیا یعنی امریکہ میں اپنی کالونیوں کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی...
فرانس کی تاریخ میں 17ویں صدی ایک ایسا دور تھا جب یورپی طاقتیں نئی دنیا یعنی امریکہ میں اپنی کالونیوں کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنا رہی تھیں۔ اسی تناظر میں، 1663ء سے 1673ء تک، فرانس نے تقریباً 800 نوجوان عورتوں کو نو فرانس یعنی جدید کیوبیک، کینیڈا بھیجا، جنہیں فیلز دو روا یعنی کنگ کی بیٹیاں کہا جاتا ہے۔ یہ عورتیں زیادہ تر غریب، یتیم یا کمزور پس منظر کی حامل تھیں، اور فرانسیسی بادشاہ لوئی چودھویں نے ان کی نقل مکانی، جہیز اور بنیادی ضروریات کا خرچہ اٹھایا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد کالونی کی آبادی کو مستحکم کرنا، شادیوں کو فروغ دینا اور فرانسیسی مردوں کو وہاں رہنے کی ترغیب دینا تھا، تاکہ نو فرانس کی آبادی میں اضافہ ہو اور فرانس کی علاقائی دعویداری مضبوط ہو۔ یہ منصوبہ نہایت کامیاب رہا: ایک دہائی کے اندر کالونی کی آبادی دوگنی سے زیادہ ہو گئی، اور زیادہ تر عورتیں آمد کے فوراً بعد شادی کر لیتی تھیں۔ آج، مورخین کا اندازہ ہے کہ فرانسیسی کینیڈینوں میں سے تقریباً دو تہائی افراد کم از کم ایک آبائی جد کو کسی فیلز دو روا سے جوڑ سکتے ہیں۔ یہ مضمون فیلز دو روا کی تاریخ، پس منظر، انتخاب کے عمل، سفر، نو فرانس میں زندگی، شادیوں، آبادی پر اثرات اور وراثت پر تفصیلی روشنی ڈالے گا، جو فرانسیسی کینیڈا کی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے کلیدی ہے۔ 17ویں صدی کے وسط میں، نو فرانس کی کالونی بنیادی طور پر مردوں پر مشتمل تھی: فوجی، فر ٹریڈرز، مشنری پادرے اور مزدور۔ 1663ء میں کالونی کی کل آبادی تقریباً 3,200 تھی، جن میں عورتیں بہت کم تھیں۔ یہ جنسی عدم توازن کالونی کی ترقی میں رکاوٹ تھا، کیونکہ مرد تنہا رہنے کی وجہ سے واپس فرانس لوٹ جاتے تھے یا مستقل آباد نہیں ہوتے تھے۔ اس کے مقابلے میں، انگریزی کالونیوں میں خاندانوں کی تعداد زیادہ تھی، جو آبادی میں تیزی سے اضافہ کا باعث بن رہی تھی۔ فرانس کو خدشہ تھا کہ نو فرانس کا علاقہ برقرار نہ رہے گا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، نو فرانس کے انٹنڈنٹ یعنی حاکم ژاں تالوں نے بادشاہ لوئی چودھویں کو تجویز پیش کی کہ کم از کم 500 عورتوں کو سرکاری خرچ پر بھیجا جائے۔ تالوں کا خیال تھا کہ یہ عورتیں شادیاں کرکے خاندان قائم کریں گی اور فرانسیسی مردوں کو کالونی میں رکھنے میں مدد دیں گی۔ بادشاہ نے اسے منظور کیا، اور پروگرام کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ کارگن-سالیر ریجمنٹ کے فوجیوں کو بھی کالونی میں رکھنے کے لیے تھا، جو حال ہی میں ڈی موبیلیز ہوئے تھے۔ پروگرام کی نگرانی وزیر ژاں بپٹسٹ کولبرٹ نے کی۔ یہ عورتیں کنگ کی بیٹیاں کہلائیں، جو ان کی سرکاری سرپرستی کی عکاس تھیں، نہ کہ شاہی خاندان سے تعلق کی۔ مورخ یوس لینڈری کے مطابق، کل تعداد 770 سے 850 کے درمیان تھی۔ فیلز دو روا کا انتخاب سخت تھا، جو ان کی اخلاقی شخصیت اور جسمانی صحت پر مبنی تھا، کیونکہ کالونی کی زندگی سخت تھی۔ زیادہ تر عورتیں 12 سے 25 سال کی تھیں (57% 16 سے 25 سال، 10% 12 سے 15 سال، 22% 26 سال سے زیادہ)، اور اوسط عمر 24 سال تھی۔ وہ زیادہ تر فرانس کے مغربی علاقوں سے تھیں: 80% پیرس، نارمنڈی اور دیگر مغربی صوبوں سے، جن میں نصف پیرس سے۔ بہت سی شہری تھیں، جیسے ہاسپٹل جنرل ڈی پیرس یا سینٹ سلپیس پیرش سے۔ وہ غریب، یتیم یا بڑے خاندانوں سے تھیں جو انہیں اسپیئر سمجھتے تھے۔ چند غیر فرانسیسی بھی تھیں، جیسے جرمن، انگریز یا پرتگالی۔ انتخاب کے لیے پیرش پریسٹ سے حوالہ نامہ درکار تھا۔ اعلیٰ خاندان کی عورتوں کو افسروں سے شادی کے لیے منتخب کیا جاتا۔ بادشاہ نے ہر عورت کے لیے فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 100 لیور ادا کیے، اور جہیز 400 لیور کا تھا، جو مالی مسائل کی وجہ سے بعض اوقات اشیاء میں تبدیل ہو جاتا۔ چند عورتیں واپس بھیجی گئیں اگر وہ معیار پر پورا نہ اتریں۔ 41% کو 50 لیور کا رائل جہیز ملا، اور کچھ کو 100 یا 200 لیور۔ یہ عورتیں اٹلانٹک پار کرکے بحری جہازوں سے نو فرانس پہنچیں، جن کا کرایہ بادشاہ ادا کرتا۔ وہ بنیادی طور پر کیوبیک سٹی، ٹروا ریویر اور مونٹریال میں اتریں۔ پہلے کیوبیک سٹی، پھر ٹروا ریویر، اور آخر میں مونٹریال۔ خوبصورت عورتیں جلدی شادیاں کرتیں، اس لیے زیادہ تر کیوبیک سٹی میں رہتیں۔ سالانہ آمد: 1663 (36)، 1664 (1)، 1665 (80-100)، 1666 (0)، 1667 (109)، 1668 (80)، 1669 (149)، 1670 (165)، 1671 (150)، 1672 (0)، 1673 (60)؛ کل 832-852۔ چند نے سفر سے پہلے انکار کر دیا، کچھ راستے میں مر گئیں یا واپس لوٹ گئیں۔ ڈیپے میں ایک یادگار تختی ان کی روانگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ نو فرانس میں زندگی سخت تھی، خاص طور پر شہری عورتوں کے لیے جو کھیتی باڑی سے ناواقف تھیں۔ سینٹ میری ڈی ل انکارنیشن نے ان کی مشکلات نوٹ کیں۔ مونٹریال میں، مارگریٹ بورجیوا نے انہیں رکھا، جو 1668 میں میسن سینٹ گیبریل نامی فارم ہاؤس حاصل کیا۔ عورتیں شادی تک رہائش اور کھانا پاتیں۔ زیادہ تر دیہی زندگی میں ڈھل گئیں، اور خوراک کی فراوانی کی وجہ سے فرانس میں رہنے والیوں سے زیادہ بچے پیدا کیے اور لمبی زندگی گزاری۔ تقریباً 300 شادی نہ کر سکیں: کچھ واپس لوٹیں، کچھ مر گئیں یا سنگل رہیں۔ شادیاں پروگرام کا مرکزی مقصد تھیں۔ آمد کے بعد، عورتیں چند ماہ سے دو تین سال میں شادی کر لیتیں۔ چرچ میں منگنی ہوتی، اور کچھ نوٹری کے سامنے معاہدہ کرتیں۔ شادیاں عورت کی پیرش میں ہوتیں، اور بینز کم شائع ہوتے۔ معاہدے مالی تحفظ دیتے اور منگنی توڑنے کی اجازت۔ 1669-1671 کی آمدوں میں بہت سی نے معاہدے توڑے۔ 737 نے نو فرانس میں شادی کی۔ 1670 تک، 1669 کی عورتیں زیادہ تر حاملہ تھیں، اور 1671 تک 700 بچے پیدا ہوئے۔ کالونی کی 835 امگریشن شادیوں میں 774 میں ایک فیلز دو روا شامل تھی۔ پروگرام نے آبادی کو ڈرامائی طور پر بڑھایا: 1663 میں 3,200 سے 1672 میں 6,700۔ تالوں نے 1671 میں کامیابی کی اطلاع دی۔ یہ خاندانوں اور پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بنا، اور کالونی خود کفیل ہو گئی۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ یہ عورتیں طوائفیں تھیں، جو 17ویں صدی سے چلی آ رہی ہے، جیسے بیرن ڈی لاہونٹن کی تحریروں سے۔ حقیقت میں، صرف کیترین گیچیلن پر الزام لگا، جو 1675 میں مقدمہ چلی۔ اس نے دو شادیاں کیں اور بچے پیدا کیے۔ پروگرام اخلاقی معیار پر مبنی تھا۔ کلیدی شخصیات میں ژاں تالوں پروگرام کے تجویز کنندہ تھے۔ فرانسوا ڈی لاول آمد کا استقبال کرنے والے تھے۔ مارگریٹ بورجیوا اصطلاح استعمال کرنے والی اور رہائش فراہم کرنے والی تھیں۔ لوئی ڈی بوڈ ڈی فرونٹینک آخری بیچ کی درخواست کرنے والے تھے۔ فیلز دو روا کی وراثت فرانسیسی کینیڈا میں زندہ ہے: ہزاروں شمالی امریکیوں کی ماں ہیں۔ وہ فرانسیسی زبان کی معیاकरण میںr مددگار تھیں۔ 1671 کے بعد پروگرام بند ہوا، مگر 1673 میں 60 مزید بھیجی گئیں۔ 2013 میں 350ویں سالگرہ منائی گئی۔ یہ عورتیں نو فرانس کی بنیاد رکھنے والی ہیروئنز تھیں، جن کی ہمت نے ایک نئی قوم کو جنم دیا۔

 
 
 
.png) 
 
 
 
 
 
 
 
کوئی تبصرے نہیں
Hi