Page Nav

HIDE

تازہ ترین:

latest

افسانہ وفادار کنجري تحرير: فيروز افريدي

  افسانہ وفادار کنجري تحرير: فيروز افريدي دیارِ غیر کی زندگی اکثر اپنی اصل سے کچھ فاصلے پر جیتی ہے۔ یہاں نہ محلے کی وہ رونق ہوتی ہے، نہ بزرگ...

 



افسانہ

وفادار کنجري

تحرير: فيروز افريدي


دیارِ غیر کی زندگی اکثر اپنی اصل سے کچھ فاصلے پر جیتی ہے۔ یہاں نہ محلے کی وہ رونق ہوتی ہے، نہ بزرگوں کی ڈانٹ، نہ ماں کے کھانے کا ذائقہ، نہ دوستوں کی چھوٹی چھوٹی شوخیاں۔ کچھ لوگ اس خالی پن کو ادب سے پُر کرتے ہیں، کچھ موسیقی سے، اور کچھ... عیاشی سے۔

میں ان لوگوں میں سے تھا جو شعر و ادب میں پناہ ڈھونڈتے تھے۔ ہر مشاعرہ، ہر محفل میرے دل کو ایسا لگتا جیسے کھوئی ہوئی سانس واپس آ گئی ہو۔ لیکن میرے دوست اعجاز جو بالکل مختلف ذوق رکھتا تھا۔ اسے موسیقی، فلمی شو، اداکارائیں اور رنگینیاں بھاتی تھیں۔

اعجاز ٹھیکے داری کرتا تھا اور میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں مینیجرکی حثیت ملازم تھا۔ زندگی کے تنگ دائرے سے نکل کر وہ عیش کے دائرے میں رہنا چاہتا تھا۔ پیسہ تھا، اختیار تھا، اور کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ بچپن ہی سے "امّ‌الخبائث" یعنی شراب سے شناسائی نے اس کے اندر کی بھڑک کو بھڑکا دیا تھا۔ پیسے اور آزادی کا میل انسان کو جلدی بگاڑ دیتا ہے، اور اعجاز اسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔

ایک رات اس نے مجھے ایک چودھری صاحب سے ملوایا۔ چودھری نامی یہ شخص سرکاری ادارے میں الیکٹریشن تھا مگر شوقیہ موسیقی کے پروگرام کرایا کرتا تھا۔ فلمی دنیا سے شغف رکھنے والا یہ چودھری صاحب اس بار باقاعدہ اداکاراؤں کے شو کرانے کے چکر میں تھے۔

جب سارے انتظامات مکمل ہوئے اور شو کے لئے فنکاروں کے انے کا دن اں پہنچا توہم سب چودھری صاحب کی معیت میں ائیرپورٹ چلے گئے

کہ "بڑی اداکارائیں" آ رہی ہیں۔ اعجاز اپنی نئی لینڈ کروزر میں مجھے بٹھا کر لے گیا۔ میرے ایک واقف سیکیورٹی افسر نے ہمیں اندر جانے دیا۔

امیگریشن سے جب وہ "اداکارائیں" باہر آئیں تو دل کو ایک عجیب سا جھٹکا لگا۔

جو چہرے سکرین پر کوہِ قاف کی پریاں لگتی  تھی، وہ حقیقت میں تھکے ہوئے، بے نور، اور وقت کی گرد میں اٹے ہوئے لگے۔ ان کے چہرے پر وہ چمک نہیں تھی، صرف مصنوعی تبسم کے پیچھے چھپا ہوا دکھ تھا۔

میں نے ان میں سے ایک کا نام لیا کہ وہ ابھی تک باہر کیوں نہیں ائی تو ایک سانولی، عام سی عورت نے جواب دیا،

“جی وہ میں ہوں۔”

میرے لبوں سے بے اختیار "استغفراللہ" نکل گیا۔ میں خاموش رہا، مگر دل میں سوچتا رہا — “کھانے کے دانت اور، دکھانے کے اور والی بات ہے ۔ 

باہر تماشبینوں کا ہجوم تھا۔ چودھری صاحب کے کچھ مفت خور گلدستے لیے کھڑے تھے۔ سب کو گاڑیوں میں بٹھایا گیا۔ فلموں کی یک اداکارہ کو اعجاز نے اپنی لینڈ کروزر میں بٹھا لیا، اور باقیوں کو چودھری صاحب کے ساتھیوں کے گاڑیوں میں سوار کرایا گیا۔

ان میں ایک ایسی ڈانسر بھی تھی جس کی ماں اسی روز پاکستان میں فوت ہو گئی تھی۔ وہ لڑکی ہوٹل کے کمرے کے باہر روتے ہوئے مجھ سے فون مانگ کر کال کر رہی تھی۔ میں نے جب اس کے آنسو دیکھے تو پہلی بار محسوس کیا کہ ان چمکتی روشنیوں کے پیچھے کتنے اندھیرے ہیں۔ وہ ماں کو تختے پر چھوڑ کر آئی تھی کیونکہ شو سے اس کے روٹی روزی اورمستقبل کا دارومدار تھا۔

اعجاز کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے اسی اداکارہ سے کہا،

“یہاں آپ سے ملنے کے لیے لوگ بے چین ہیں!”

اداکارہ نے قہقہہ لگایا، “ملیں گے سب سے، مگر ابھی نہانا ہے۔ پسینے کی بدبو آرہی ہے۔”

اعجاز نے شوخی سے کہا، “آپ بغیر صفائی کے بھی اچھی لگتی ہیں۔”

اداکارہ نے انگلی کی پور دکھا کر کہا، “دیکھو، اتنے بال ہیں!”

قریب ہی پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے عاشق حسین نامی ہئیرڈریسر بولا، “بی بی جی، آپ حکم کریں، اوپر نیچے ہر جگہ کی صفائی حاضر ہے!”

اداکارہ نے طنزاً کہا، “لگتے بھی ہو نائی!”

وہ جھینپ گیا مگر بولا، “خدمت کے لیے بندہ حاضر ہے!”

ہوٹل پہنچے تو چودھری صاحب غائب ہو گئے۔ اعجاز نے ان کے کھاتے پر فور اسٹار ہوٹل سے بیس پچیس لوگوں کا کھانا منگوا لیا۔ بل کمرے کے کھاتوں میں ڈال دیا گیا۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی۔

اسی رات کوشو ہوا لیکن  نہ پبلسٹی، نہ تماش بین۔ صرف ایک نوّے سالہ بوڑھا اسپانسر اگلی صف میں بیٹھا ڈانس دیکھتا رہا۔ شو فلاپ ہو گیا تو اس نے چودھری صاحب پر کیس کر دیا۔

چودھری جواری آدمی تھا، اس نے اپنے گھر میں بھی جوا خانہ کھلا ہوا تھا۔ بیوی بھی آزاد مزاج اور مردوں کو پھنسانے کا فن جانتی تھی۔ ایک رات مجھے بھی بلایا، مگر میں جلدی نکل آیا۔ اسے فوراً اندازہ ہو گیا کہ اس مرغے میں جان نہیں۔

جب کسی نے پوچھا، “چودھری صاحب، اتنا نقصان ہو گیا، افسوس نہیں ہوا؟”

وہ ہنسا، “چودھراٹ گھر گنوا کر ہوتی ہے، بنا کر نہیں!”

چند ماہ بعد اسی کیس میں  پورا خاندان ملک بدر ہو گیا۔

اعجاز نے بھی چودھری کو نقصان پہنچانے میں کمی نہیں چھوڑی تھی۔ ایک اداکارہ جس کا تعلق کہیں اور سے تھا لیکن ہمارے علاقائی زبان میں فلموں کی اداکارہ تھی  حوالے سے ایک نوجوان سرکاری ملازم کو پھنسوا دیا۔ وہ بیوی بچوں والا تھا، مگر اس اداکارہ کے ساتھ ایسا الجھا کہ نوکری، گھر سب چھوڑ کر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔

میں تو انکے ساتھ ایک شو دیکھر پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوا لیکن اعجاز انکے ساتھ تین چار دن لگا رہا۔ اب اعجاز کو ان “رنڈیوں” کا چسکہ لگ چکا تھا۔ ہر دو مہینے بعد لاہور جا کر اپنی خواہشات پوری کرتا رہتا تھا۔ 

ایک بار پھر کسی شو کے بہانے وہ ایک اور عمر رسیدہ اداکارہ کو کسی دوسرے شخص کی وساطت سے بلایا ۔ وہ جب ائیرپورٹ سے باہر ائی تو اس کا سامان لاہور ائیرپورٹ پر رہ گیا تھا کپڑے، میک اپ، سب کچھ۔ وہی پر لوڈنگ سے رہ گیا تھا۔

وہ اعجاز کی گاڑی میں بیٹھتے ہی رونے لگی، “میرا شو ہے آج، میرا     سارا سامان تو اسی بکس میں تھا !

اعجاز نے تسلی دی، “آپ فکر نہ کریں، میرے ہوتے ہوئے کوئی کمی نہیں ہوگی۔”

اس کے لہجے میں عجب نرمی آ گئی تھی۔ شاید پہلی بار اسے اس کنجری پر ترس آیا تھا، یا شاید کوئی نیا شوق جاگا تھا ۔

وہ اداکارہ دراصل "لڑکیوں کی سپلائر" بھی تھی۔ اعجاز کو معلوم تھا کہ اس سے تعلق رکھنے کا مطلب ہے "آسان رسائی"۔ مگر اس کے باوجود، اس دن وہ غیر معمولی نرم دل دکھائی دیا۔

اداکارہ بولی، “میرے سارے کپڑے اور میک اپ کا سامان اسی بکس میں تھا۔”

اعجاز نے کہا، “کوئی بات نہیں، آج شام کو بازار چلیں گے، سب خرید لیں گے۔”

شام کو وہ اسے شاپنگ کرانے لے گیا۔ نئے کپڑے، میک اپ، سب کچھ خریدا۔ پھر شو میں لے گیا، جہاں وہ انہی کپڑوں میں پرفارم کر کے واپس ہوٹل آئی۔

شو کے دنوں میں اعجاز مسلسل اس کے ساتھ رہا، اور پھر یہی اداکارہ انکی پکی دوست بن گئی اورلاہور میں جب اعجاز کا قیام رہتا یہی  اس کی میزبان بنتی رہی ۔

اعجاز جب تک لاہور میں رہتا ، وہ اداکارہ ہر شام نئ لڑکی، اور شراب،  کا اہتمام اپنے گھر میں اسکت لئے کرتی رہتی۔

 اداکارہ  کے گھر میں تین چار گھنٹے موج مستی اعجاز کے معمول کا حصہ بن گیا تھا۔ کئی سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔

ایک دن اعجاز نے وطن سے واپسی پر مجھ سے کہا، “یار، جانتے ہو، اس بار میرے ساتھ کیا ہوا؟”

میں نے کہا، کیا ہوا؟”

بولا، میں ہوٹل سے شام کو اس اداکارہ کے گھرچلا جاتا تھا ،ایک تو اسکی جگہ محفوظ تھی دوسری بات یہ کہ وہ میرا بڑا خیال رکھتی تھی۔ وہاں کے قیام کے اخری شام جب میں اداکارہ کے گھر پہنچا تو باقی سب تیاریاں تھیں مگر لڑکی نہیں آئی تھی۔ رات کو خوب شراب پی لی۔ اداکارہ اور اس کے شوہر میرے ساتھ ہی پیتے رہے ، میں سوچ رہا تھا کہ شاید لڑکی دیر سے انے والی ہے۔ اس شام کو اداکارہ نے بھی خوب بناؤ سنگھار کیا ہوا تھا ۔ رات ایک بجے کے قریب اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا،

‘اعجاز، ایک بات کرنی ہے اپ سے، میرے ساتھ کمرے میں چلو۔’”

اداکارہ کے گھر کے دو حصے تھےایک حصے میں وہ اور بچے رہتے تھے، دوسرا حصہ صرف عیاشی کے لئے مختص تھا ۔

اعجاز کہنے لگا، “وہ مجھے ہاتھ سے سے پکڑے  میرے قریب آ کر بیٹھ گئ اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، اور بولی،

‘اعجاز سچی بات یہ ہے کہ اپ نے ہمیشہ میرا بڑا خیال رکھا ہے، جب بھی باہر سے اتے ہو تو مجھے اور میرے بچوں کے لئے سامان بھی لیکر اتے ہو۔ وہاں دیار غیر میں  جب میں اتی ہوں وہاں پر تم نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا ہے۔ جب بھی میں شو کے لیے آئی، تم نے ہر چیزمجھے دی ہے۔ آج میں تمہیں کچھ دینا چاہتی ہوں۔

اعجاز نے ہنس کر کہا، “ارے، تم نے بھی تو میرا خیال رکھا، یہ خدمت کوئی کم ہے؟

اداکارہ بولی، “نہیں، آج وہ  میں وہ  قیمتی چیز دوں گی جو اس سے زیادہ میرے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں۔

آج تک تمہیں لڑکیاں دلاتی رہی ہوں، آج میں خود تمہارے لیے لڑکی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے باہیں پھیلائیں ۔

اعجاز نے کہا، “اس کی بات سن کر میں چند لمحے چپ رہا۔ پھر بولا،

‘میں شراب پیتا ہوں، گناہ کرتا ہوں، مگر تم نے ایک دن مجھے بھائی کہا تھا۔ میں اس لفظ کی لاج رکھنا جانتا ہوں۔ اس لئے میں نے کبھی اپ کے ساتھ  اس کام کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ وہ خاموش ہوگئی اور’

میں نے اس کے ہاتھ ہلکے سے نیچے رکھے، اور دروازہ کھولا، اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔”

اعجاز کی آنکھوں میں ایک نمی سی تھی جب وہ یہ واقعہ سنا رہا تھا۔

شاید پہلی بار، اس نے کسی “کنجری” کے اندر انسان دیکھا تھا — اور شاید پہلی بار، اس نے اپنے اندر وفاداری کا احساس محسوس کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں

Hi

ہم سے رابطہ